جان لیوا جہالت


کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ایک خبر نظر سے گزری کہ پیر بابا کے ہاتھوں جن نکالنے کی کوشش کے دوران تشدد کی وجہ سے ایک فرد زندگی گنوا بیٹھا۔

اداس دل کے ساتھ سوچنے بیٹھ گیا کہ آخر کم علم اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں ہی کیوں ایسے واقعات ہوتے ہیں، کیوں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں لوگ جن نکالتے ہوئے تشدد یا کسی اور وجہ سے جان کی بازی ہار نہیں ہار بیٹھتے؟ یہ بات انتہائی غور طلب اور اس بات کی گواہ ہے کے ہمارے اجتماعی رویوں میں اب تبدیلی کی بہت شدید ضرورت ہے۔

کائنات کی وسعت اور اس وسعت کے باوجود صرف ہماری زمین ہی پر زندگی کا وجود دراصل زندگی کی قدر اور زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ لیکن اس زندگی کا اتنی بے رحمی اور بے دردی سے ختم ہونا ایک سانحہ عظیم ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ آئے دن ایسے واقعات سے زندگیاں قربان ہونے کا رحجان کم تر ہوکر ختم ہوجائے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا جسم دراصل ایک انتہائی پیچیدہ قسم کی خودکار مشین جیسے نظام سے لیس ہے اور بعض اوقات اس میں کئی ایسی خرابیاں بھی واقع ہوجاتی ہیں جو باعث پریشانی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کئی مسائل ہماری کم علمی کی وجہ سے ہم سمجھ نہیں پاتے نتیجتاً ہم پیچیدگی کو اور زیادہ پیچیدہ بناتے چلے جاتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کی مجبوری اور مایوسی کو دیکھ کر اب یہ ایک باقاعدہ پیشہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

بعض اوقات ایسی دماغی پیچیدگیوں کی وجہ بہت پہلے کے اذیت بھرے لمحات ( ذہنی و جسمانی زیادتی)، مسلسل ناکامیوں کا دباؤ، دوران تربیت غیر مناسب رویہ سے جنم لینے والی احساس محرومی وغیرہ ہوسکتی ہیں۔

ہمارہ معاشرے میں جو مسائل/ بیماریاں /نشانیاں ”جنات کے سایہ پڑنے“ سے منسلک ہیں ترقی یافتہ ممالک میں ان کے سائنسی اصطلاحات موجود ہیں اور وہاں پر جدید سائنسی طریقہ کار سے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔ وہاں پر کسی دیسی طریقہ علاج کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان معاملات پر شعور اجاگر کیا جائے اور باقی بیماریوں کی طرح ان کا بھی جدید طریقہ علاج اپنایا جائے تاکہ قیمتی جانوں کا زیاں کم سے کم تر ہوتا جائے۔

منصور علی کوسو
Latest posts by منصور علی کوسو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).