میں تمہیں چاند پہ پلاٹ دوں گا


میرا لیڈر کہتا ہے کہ وہ ہمیں چاند پہ پلاٹ دیگا جہاں ہم گندم اور آلو کی کاشت کریں گے۔ اور وہاں سے سستی ترین میٹرو سروس کے ذریعے زمین لائیں گے۔ میرا لیڈر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر آپ کا لیڈر اتنے بڑے وعدے پورے کر سکتا ہے تو میرا کیوں نہیں کر سکتا۔

آپ پاکستان کے کسی کونے میں بھی جائیں کسی سے بھی ملیں ہر عام آدمی سے لے کر بڑے بڑے عہدوں پہ براجمان افسروں تک سب میں ایک چیز ملے گی کہ وہ حکمرانوں کو برا بھلا کہے گا۔ ساتھ ہی اسی کی زبان سے یہ بھی سن سکیں گے کہ اس کا لیڈر جس کو اس نے ووٹ دینا ہے وہ باقی سب سے بہتر ہے۔ سب کے لیڈر ان کی نظر میں بہترین لیڈر ہیں مگر ایسا کیا ہے کہ آج تک ان کی قسمت نہیں بدلی۔ حکمرانوں کو دوش دیتے ہیں مگر جس کو خود چنتے ہیں وہ برا نہیں لگتا۔

گلی کوچوں اور چوک چوراہوں میں اپنے لیڈر کی تعریفیں اور ان کی غلطیوں کو صحیح ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کی تاویلیں گھڑتے نظر آتے ہیں۔ اپنے لیڈر کو لے کے غریب کے دل میں ایک امید ہوتی ہے کہ شاید کچھ ہمارے لئے بہتری ہو۔ انہیں امیدوں میں لیڈرز بدلتے رہتے ہیں اور زندگی نکل جاتی ہے مگر ان کے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں یہ کون سمجھائے کہ جسم ہی گندا ہو تو صرف کپڑے بدلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جب گھر کہ ٹنکی کے پائپ میں مرا ہوا چوہا پھنسا ہوا ہو تو آپ جتنا بھی نل کو چوستے رہیں منہ ہی گندا ہوگا۔

غریب کو دو وقت کی سستی روٹی مل جائے تو یہی اس کے لئے بہت بڑی تبدیلی ہے۔ سال بھر کے خرچوں سے تھوڑے سے پیسے بچ جائیں اور وہ ان سے اپنے بچوں کے لئے کپڑے بنا سکے تو یہ اس کے لئے تبدیلی ہے۔ روزانہ کے حساب سے کروڑوں کی کرپشن روکنے سے اس کی زندگی پہ کوئی فرق نہیں پڑتا، اسے فرق پڑتا ہے تو ان پیسوں سے جو سودا سلف لے کے بچ جاتے ہیں اور شام کو گھر لے آتا ہے۔ غریب کو اپنے بچوں کے جسم اور چہروں پہ نمایاں ہوتی کمزوری سمجھ میں آتی ہے داس کپیٹل اور کمیونسٹ مینیفسٹو نہیں۔

غریب کو ریلیف دے کر اگر تبدیلی کا آغاز کیا جائے تو ممکن ہے کہ عوام اس تبدیلی کو سمجھ پائے مگر آپ عوام سے سب کچھ چھین کر کر ان کو تبدیلی کا قائل نہیں کر سکتے۔ عوام غریب ہے ان پڑھ ہے مگر اتنی عقل تو ہے کہ اپنا نفع و نقصان سمجھیں۔ انسان کے اندر خودغرضی بھی کوٹ کوٹ کے بھری ہے سو وہ بھی اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔ اور اپنا مفاد کیوں نہ دیکھیں ان کی زندگی میں دو وقت کہ روٹی کے سوا ہے ہی کیا جس کی وہ جستجو کریں۔

سال دو سال تک بیوقوف بھی بن سکتے ہیں مگر حقیقت سب کی سمجھ میں آجائے گی کہ ان کی لئے کوئی تبدیلی آ رہی ہے کہ نہیں۔ تبدیلی کا آغاز سرمایہ داروں سے شروع ہو تو سمجھ میں آتا ہے کچھ بہتر ہو رہا ہے۔ غریب پہ بوجھ ڈال کہ ہی تبدیلی آسکتی ہے تو یہ دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی ایک روزہ آمدنی سے غریب کے پورے شہر کا خرچہ نکل سکتا ہے تو کیوں نہ بوجھ ان پہ ڈال دیں جو برداشت کرنے کہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ غریب کے پورے شہر کے بھوکے مرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑ سکتا تو مہنگائی کا بوجھ ان پہ ڈالنے سے کون سی تبدیلی آ سکتی ہے۔

یہ عوام بھی ساری دنیا کہ طرح امید پر قائم ہے۔ اسی امید کی وجہ سے کوئی سیاستدان چاہے جتنے ہی ناممکن وعدے کیوں نہ کر لے عوام یقین کرلیتی ہے کہ ان کو اکانومکس، اسٹیٹسٹکس، پالیٹکس کہ سمجھ نہیں آتی ان کو بس اپنی محرومیاں سمجھ میں آتی ہیں۔ اور وہ امید بھی ان سیاستدانوں کے وعدوں کی طرح کبھی حقیقت نہیں بن پاتی۔ کوئی۔ ان غریب لوگوں سے زیادہ دنیا میں بے بس کوئی ہو نہیں سکتا جن کی ساری زندگی امیدوں میں نکل جاتی ہے اور ان کی نسلیں تنگدستی میں گزر جاتی ہیں۔

ایسے حالات میں ایک درمیانہ طبقہ بہت پر امید نظر آتا ہے، جسے زندگی کے لالے نہیں پڑے ہوتے تو ان کو اندازہ بھی نہیں ہوتا مہنگائی ہونے سے غریب پہ کتنا اثر پڑتا ہے۔ یہ طبقہ مہنگائی کو پچھلی حکومت کے کرتوتوں کا نتیجہ گردان کر عین جائز کرار دیتا ہے۔ غریبوں کو مفت گھر دینے کے وعدے کرنے والے جب پیناڈول کی مفت گولی بھی چھین لیں تب بھی یہ طبقہ یہی بولتا نظر آتا ہے کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ عجیب جنتا ہے۔ کھونے کو زندگی کے سوا کچھ بچا نہیں ہے پھر بھی کھونے کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).