مشہور اشعار، گمنام شاعر


ہمارے قابل فخر اور منجھے ہوئے لکھاری جناب سید ارشاد حسین شاہ صاحب کے کالم بعنوان ”شاعر اور انقلاب“ نے مجھ جیسے طفل مکتب کو تحریک دی کہ میں بھی اس بارے کچھ مستند حقائق کی روشنی میں گمنام شعراء کا تزکرہ کرسکوں۔ ۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں سیکڑوں شعراء کے کلام میں ایسی تہہ داری، گہرائی اور آفاقی حقائق کی دنیا پویشدہ ہے کہ ان اشعار کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور یہ اشعار سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے ہزاروں دلوں کی زبان بن جاتے ہیں، لیکن بعض اشعار اس طرح شہرت حاصل کرلیتے ہیں کہ ان کے خالق کے بارے میں جو روایت برسوں سے بیان کی جاتی ہے، اسے ہی درست تصور کرلیا جاتا ہے۔

حالانکہ بعض مشہور اشعار کے کے خالق گمنام شعراء ہیں، لیکن ان اشعار کو یا تو عقیدتاً کسی بڑے شاعر سے منسوب کردیا جاتا ہے، یا شعر کی زبان، اسلوب، ہئیت اور لفظوں کے زیر و بم کے باعث اسے یا تو علامہ اقبال سے منسوب کردیا جاتا ہے یا میر، غالب، حالی، انیس، ذوق اور سودا وغیرہ سے اس کی نسبت درست تصور کی جاتی ہے

اردو شاعری میں ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو بہت زیادہ مشہور ہیں لیکن ان اشعار کے اصل شاعر سے ہم لاعلم ہیں۔ بہت سے مصرعے ایسے ہیں جو شہرت کے حامل ہیں، لیکن صرف ایک مصرع ہی عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے اور دوسرا مصرع بیشتر افراد کے حافظے میں نہیں ہے۔ مشہور اشعار کے گمنام یا کم معروف شعراء کی چھان بین محققین نے کی اور بہت سے اشعار کے خالق کا پتا لگایا۔ ایک بہت ہی مشہور شعر ہے، جسے عام طور پر میر تقی میرؔ کا شعر تصور کیا جاتا ہے اور سید ارشاد صاحب نے اپنی تحقیق کے مطابق مہاراج بہادر برق کے نام سے منسوب کیا لیکن مستند محقیقین نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ شعر مہاراج بہادر برق کا نہیں بلکہ الطاف الرحمن فکر یزدانی کا ہے وہ شعر یوں ہے ؎

وہ آئے بزم میں اتنا تو فکرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اب ایک اور شعر جسے اس دور کے سارے اہلِ ادب ہی بہادر شاہ ظفر کا سمجھتے ہیں، لیکن یہ شعر درحقیقت سیماب اکبر آبادی کا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارا نصاب مرتب کرنے والے اردو ادب سے وابستہ افراد بھی سیماب اکبر آبادی کا یہ شعر بہادر شاہ ظفر ہی سے منسوب کرتے چلے آرہے ہیں۔

عمر دراز، مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

شاعری کو کسی بھی شاعر کی اولاد کہا جا سکتا ہے۔ جب بھی کوئی شاعر شعر تخلیق کرتا ہے تو وہ اس شعر سے بلاشبہ اولاد جیسی محبت کرتا ہے۔ اگر کسی کی اولاد کو کسی دوسرے کا نام دے دیا جائے تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا؟ ایک اور شعر جسے اقبالؔ اور کچھ احباب مولانا ظفر علی خان کے نام سے پڑھتے ہیں۔ یہ شعر بھی ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں اکثر لکھا ملتا ہے۔ حالانکہ یہ شعر ایک گمنام شاعرجناب مضطرؔ نظامی آف سیالکوٹ کا ہے اور ان پر ایم فل کی سطح کے دو مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں۔

قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوجاتی ہے یہاں

اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں

مولانا ظفرعلی خان کا ایک نہایت مشہور شعر ہے، جسے عام طور پر کچھ لوگ اقبال اور بعض اہل علم حالی سے منسوب کرتے ہیں، لیکن اس کے تخلیق کار مولانا ظفر علی خان ہیں اور وہ شعر ہے ؎

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ہماری قوم شاعر یا ادیب پر مٹی ڈالنے کے بعد ہی اس کے کام، نام اور اس کے رنگ سے واقف ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی تو رنگ بھی ان کی اندھی عقیدت میں ایسے دھندلا جا تے ہیں، کہ تمیز ہی نہیں کر پاتے کہ جو کلام جس شاعر سے منسوب کر رہے ہیں وہ اس کے مزاج اور فکر سے ہم آہنگ بھی ہے کہ نہیں۔ شاعر کو اپنے جائز مقام کے حصول کے لیے کچھ بہت زیادہ نہیں صرف مرنا پڑتا ہے۔

حوالہ جات : قاضی عبدالودود، آوارہ گرد اشعار۔ محمد شمس الحق، گل ہائے رنگ رنگ۔ شمس بدایونی، شعری ضرب المثال۔ خلیق الزمان نصرت، بر محل اشعار۔ ڈاکٹر حسن الدین، زبان زد اشعار) (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).