اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں


بغیر کسی تمہید کے اپنی بات کا آغاز اپنے اردگرد کے حالات و واقعات سے کرتا ہوں کہ جہاں میں پیدا ہوا ہوں اور یہاں کے ہر حالات کو میں خود چشم دید گواہ بھی ہو۔ عماما انسان کسی معاشرے کے حوالے سے جب بات کریں گے تو سیکینڈری ڈیٹا کے ذریعے ریفرنس دیتے ہیں وہ بھی اپنی جگہ بے حد ضروری کیونکہ ہر جگہ ہر بندہ جا نہیں سکتا۔ میں یہاں کسی ٖغیر مستند رائیٹرز کا حوالہ دیے بغیر خود اپنے معاشرہ بلوچستان کے زمینی حقائق سے دوسروں کو بتانے کی کوشش کروگا جب سے ہم نے اپنے سماج میں اپنی آنکھیں کھولی ہیں تو یہی دیکھتے اور سہتے آرہے ہیں۔

جو چیز ہم خود محسوس کرتے ہیں آرہے ہیں وہ ہم سے زیادہ اور کوئی شاید بیان کرسکے کیونکہ اگر کسی کو سوئی لگے در د اور تکلیف متاثرین کو ہوتا ہے احساس ضرور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دنیا کے دیگر انسان دوست کو اس کا شدت سے احساس ہو۔ مگر آج کا معاشرہ بھی اب وہ سماج نہیں رہا انسان انسان کا دوست و ہمدرد ہو ا کرتا تھا اب ہر انسان دوسرے کے خون کا پیاسا ہے ان رویوں اور نظام کے خلاف انسان نے اپنے عظیم تر مفادات کی خاطر سوچنا ہوگا۔

احساس کا کوئی مذہب، یا کسی قوم، رنگ نسل ذات پات سے کوئی تعلق نہیں ان کا رشتہ باقاعدہ ہر انسان کے ضمیر کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے، اب تک سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسی کوئی میڈیسن یا سوفٹویئر نہیں بنائی ہے کی جس سے انسان کے اندر کی ضمیر کو جگا دے اس کا دار و مدار یا کنٹرول بھی اب تک کسی زمینی آقا کے تابے میں نہیں ہے۔

میرا یہاں کہنے کا ہر گز مقصد یہ نہیں ہے کہ اسوقت اس فیڈریشن کے اندر بلوچ کے علاوہ باقی مظلوم نہیں ہیں، یہاں سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی بھی اپنے قومی سوال اور شناخت کے بحران کا شکار ہیں۔ مسلے کی افتتاع بھی شناخت سے ہوئی ہے اور ان کا اختتام بھی شناختوں کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ہم سے پہلے ہمارے بزروگوں نے بھی اسی نظام کے اندر اپنی آنکھیں کھولی ہیں اور ہم بھی اسی معاشرے کے ہر ظلم نا برابری کے ستائے ہوئے گواہ ہیں۔ میں نے آج تک کسی سے یہ تصدیق نہیں کرائی کے واقعی کسی کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے بلکہ میرا یقین اسی پہ ہے کہ جس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے ساتھ ہو رہا ہوگا کیونکہ ظلم کا بھی کسی نسل سے تعلق نہیں رکھتا ان کے لیے سب برابر ہیں وہ برابری کی بنیاد پر سب کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

اس کا ہدف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتا ہے وہ ایک ذات کو نہیں پوری نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ان کا کوئی سرحدبھی نہیں ہوتا۔ آج یہاں کل وہاں بھی ہوسکتا ہے۔ تو بہتر یہی ہوگا کوئی اپنے باری کا نتظار کیے بغیر صیح موقعے پر حالات کا ادراک کریں اور ہمدرد بیں شاید انہی میں سے کوئی کل آپ کا ہمدرد و آواز بن سکے۔ مجھے آج تک کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ اسوقت ہمارے معاشرے میں ایسے گھر بھی ہیں کہ جہاں چولہا نہیں جلتا معصوم بچے اور بے سہارہ، اما، ابا اسی بھوک و مفلسی کو اپنا مقدر سمجھتے ہیں۔

بچے بوڑھے پا برہنہ ہونا کوئی انوکھی بات ہوگی بلکہ مجھ سمیت بے حساب ایسے لوگ ہوں گے جو اس کرب سے گزر رہے ہوں گے۔ مجھے کوئی کیے یا نا مجھے اس بات کا خود علم ہے کہ ہزاروں بچے بچیاں اپنی اپنے محلے کے ان ہمسروں کو صبح سکول جاتے ہوئے دیکھ کر اُن پہ کیا بیت رہا ہوگا جو وہ اپنی خوابوں کو تعبیر نہیں کرسکتا۔ اب کسی کو عالمی میڈیا سے اس خبر کی تصدیق نہیں کرنا ہے کہ کن کن محلوں میں بزرگ اپنے پیاروں کی انتظار میں ہیں ؛؛ ماما کی طویل انسان دوست جدوجہد نے تاریخ کے اوراق میں انمٹ نقوش رقم کی ہے۔

اب کسی کے سامنے اپنی پسماندگی کو بیان کرنے کے لیے رونے کی ضرورت نہیں ہے سوئی سے نکلنے والے گیس پورے ملک کو آسودہ و خوشحال کردیا ہے مگر وہاں کے باسی اب بھی لکڑی کاٹتے ہیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ستر سال تک صوبے کا ایک ہی پبلک یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کا سب کو علم ہے۔ بس اور کیا ہوسکتا ہے اس نابرابری اور مفلسی ہم سب مظلوموں کو مشترکہ مسئلہ ہے اس کے لیے جدوجہد کے میدان میں پرامید و پر ہضم ہوکر اس سماج کے جوانوں کو یہ احساس دلانے کے راہ میں نکلیں گے کے آپ کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ اب اس رات کی تاریکی میں اپنی داستان حسرت کو سُنانے کے سوا اور کچھ ہیں کر سکتے چلو اب آپ کچھ اپنا سُناؤ اور کچھ ہم اپنا بتائیں گے تاکہ سورج نکلے اور روشن مستقبل کے خواں پھر اپنی سفر شروع کریں۔ ً


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).