امت اور کشمیری


انسانیت اسی دن مٹی کی ہزاروں تہوں میں دفن ہو گئی تھی جب انسان نے خدا کو چھوڑ کر دنیا کے اندر اپنے ہی لیے ”سپر پاور“ تراشنے شروع کر دیے تھے۔ اور سپر پاور کو خاموشی سے وہ تمام اختیارات دے دیے جو صرف اور صرف خدا کا حق تھے۔ برطانیہ سے لے کے روس تک اور امریکہ سے لے کر چین تک سرمایہ داری نظام اور سامان حرب نے ترقی کی منازل تو تہہ کیں لیکن انسانیت اتنی ہی کسمپرسی کی طرف گامزن رہی۔ انسان نے خود کو ہی اس قدر محکوم کر لیا کے آج سانس لینے کے لئے بھی اجازت کی ضرورت ہے۔

ہم نے خود ہی بدترین غلامی کو آزادی کا نام دے کر اپنے اوپر نافذ کر لیا۔ آج ہمارے پاس کس چیز کی آزادی ہے۔ ہم کھانا تک اپنی مرضی سے نہیں کھا سکتے۔ ہم سب غیر اعلانیہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نامی گروہ کے نرغے میں ہیں۔ ہم اپنے حق کے لئے نہیں بھول سکتے ہم اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی شکایت نہیں کر سکتے ہم اپنی مرضی کے خیالات نظریات نہیں پال سکتے۔ ہم اپنی مرضی کی سیاسی مذہبی جماعتوں کو سپورٹ نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے مذہب کو اصل اصل حالت میں اپنا نہیں سکتے۔

ہم مسلمان ہیں لیکن ہمارا اسلام وہی ہے جو عالمی گروہ ہمیں بتاتا ہے قرآن کی وہ آیات رسولؑ کی وہ احادیث جو ان کو نہیں پسند وہ نہ ہم پڑھ سکتے ہیں نہ اپنے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔ ہم اپنی مرضی کا نصاب نہیں بنا سکتے ہم اپنی مرضی کا نظام نہیں لا سکتے ہم اپنی مرضی پہ بول بھی نہیں سکتے۔ ہم اپنی مرضی پر کوئی تحریک نہیں چلا سکتے اور اگر چلا لیں تو اس کی کامیابی کے اس وقت تک کوئی چانس نہیں جب تک امپائر کی انگلی نہیں اٹھتی۔ ہم کس نظریے کے مطابق آزاد ہیں؟

دنیا کے اس مطلب پرستانہ، خود غرضانہ، سرمایہ درانہ نظام کے دور میں خطہ کشمیر کے باسی دنیا سے انصاف مانگ رہے ہیں۔ اس سے بڑی بیوقوف قوم کیا کسی اور ذمین کے ٹکڑے پہ آباد ہو گی؟ اسلامی اتحاد کے نام پہ فوجیں بنائی جا رہی ہیں سامان حرب کے ڈھیر لگائے جا رہے ہیں۔ نئے اتحاد تشکیل دیے جا رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر سعودی عرب اور ایران باہم برسرپیکار ہیں۔ اپنے اقتدار بچانے کے لئے یہودی عیسائی ہندو اور لامذہب گروہوں کی گود میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لئے زور آزما ہیں۔

حضورؐ نے فرما دیا تھا کے یہود و ہنود تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ لیکن آج حقیقی اسلام کا دعوا کرنے والے یہود و ہنود کی گود میں بیٹھے ہیں۔ قصور ان کا نہیں۔ ہم ان سے کس حیثیت سے سوال کریں۔ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، جہاد روزے کی طرع ہی فرض ہے، یہود و ہنود مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے جیسے اسلام کو ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ہم روشن خیال مسلمان ہیں۔ اور ویسے بھی یہ امت کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک کروڑ بے بس اور مظلوم مسلمانوں کا مسئلہ ہے جو نہ سعودی عرب میں اور نہ ایران میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ مشکل وقت میں نہ سعودی عرب کی مدد کو انڈیا پہنچے گا نہ ایران کی مدد کو اس وقت یہ صرف پاکستان کو پکارتے ہیں۔

ہمیں اب ان سے نہ کوئی امید ہے نہ کوئی گلہ شکوہ اب ہم صرف ایک ہی سوال کرتے ہیں کے ہمارے اپنوں نے کیا کیا اور آگے کا کیا ارادہ ہے؟

پچاس دن گزر گئے ایک کروڑ مسلمان جبس بے جا میں بھوکے بیٹھے ہیں۔ مریض تڑپ تڑپ کے جان دے رہے ہیں۔ عزتیں نیلام ہو رہی ہیں۔ مائیں ہمارا راستہ دیکھ دیکھ کر اندھی ہو چکی۔ امت مسلمہ کے محمد بن قاسم اپنی سیاست بچا رہے ہیں۔ ان کے مالی مفدات ایک کروڑ مسلمانوں سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کے کشمیری پاکستان کے نام نہاد سیاست دانوں اور وزیراعظم کی اچھل کود سے مطمن ہو رہے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔

کشمیریوں کی امیدیں صرف اور صرف پاکستان آرمی سے ہیں۔ ہماری آنکھیں ان کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ ہم جانتے ہیں سفارتکاری کا وقت گزر چکا۔ جو غلطیاں ہوئیں ان کا ازالہ اب سفارت کاری سے ہونے والا نہیں۔ ہمارے پاس وقت کم ہے۔ ہمھاری جان ہمارا مال پاکستان آرمی کے لئے حاضر ہے۔ ہم ویسے بھی ستر سال سے بارڈر لائن پہ حالت جنگ میں ہیں۔ اب وقت ہے اس جنگ کو انجام تک پہنچایا جاے۔ کہیں کل اس کو بھی ماضی کی غلطی قرار دے کر کشمیریوں کو زندہ دفن نہ کر دیا جاے۔

کیا کشمیریوں کا پاکستان کے پرچم میں دفن ہونا ویسی ہی غلطی تھی جیسی غلطی پاکستان کا افغان جنگ میں شامل ہونا تھی۔ ؟ پاکستان سے رشتہ کیا لا الا اللہ کا ستر سالہ نعرہ کیا دیگر اسلامی ملکوں کا امت والے نعرے کی طرع تھا؟ ہم نا امید نہیں۔ ہم ہارنے والے نہیں۔ ہم سات سو سال بھی لڑ لیں گے۔ ہمیں بس اتنا سہارا چائیے کے ہماری تڑپتی روح کو یہ یقین ہو جائے کے ہمارے اپنوں نے ہماری پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا۔ ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔ اور اگر کوئی ہمیں الگ سمجھتا ہے تو فیاض الحسن کی طرع بھونکنے والوں کو ہڈی ہم ڈال دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).