مرتے ہوئے انسان کی خواہش پوری نہ کرنے کی خلش!


” یہ تلخیاں یونہی نہیں آ گئیں مجھ میں، جن حالات میں زندگی گزری، انہوں نے طبیعت میں تلخیاں بھر دیں“، یہ الفاظ میرے ماموں کے تھے جو شدید زخمی اورشدید علالت کے باعث ہسپتال کے بستر پر زندگی کے آخری دنوں میں تھے۔ وہ آئی سی یو میں تھے جہاں ہر مریض کا بستر لکڑی کے ایک کیبن نما میں تھا۔ رات کے دو، ڈھائی کا وقت تھا، وہ یک دم نیند سے جاگے اور مجھ سے باتیں شروع کردیں۔

اس وقت ان کی حالت یہ تھی کہ انہیں سڑک پہ پیدل چلتے ہوئے ایک گاڑی نے ٹکر مار دی جس سے ان کی دونوں ٹانگوں اور پسلیوں میں فریکچر ہو گئے۔ انہیں شوگر کا مرض تھا جس سے ان کی تکلیف میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کچھ باتیں کرنے کے بعد اچانک کہنے لگے، میں تمہیں ہمیشہ تلخ ہی نظر آیا ہوں گا، لیکن یہ تلخیاں ایسی ہی نہیں آ گئیں، زندگی میں کیا کیا دیکھا اور برادشت کرنا پڑا، یہ اسی کے اثرات ہیں۔

میرے نانا خواجہ عبدالاحد دلاور وانی ریاست جموں و کشمیر کی اولین سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کے قیام کے وقت بارہمولہ سے سیکرٹری مقرر ہوئے اور قبائلی حملے کے وقت انہوں نے بارہمولہ میں پانچ سو قبائلیوں کو اپنا مہمان رکھا۔ قبائلی پسپائی اور انڈین فوج کے آنے پر انہیں ہجرت کر کے یہاں آنا پڑا۔ وہ ایک عالم تھے، عربی، فارسی، ہندی، کشمیری، پہاڑی، ڈوگری، گوجری سات زبانوں پر عبور حاصل تھا اور ان تمام زبانوں میں انہوں نے شاعری بھی کی۔ پاکستان آ کر وہ تحریک آزادی کشمیر کے ترجمان ریڈیو تراڑ کھل سے وابستہ ہو گئے اور ریڈیو کی نشریات سننے سے ہی بارہمولہ میں ان کے رشتہ داروں کو معلوم ہوا کہ وہ زندہ ہیں۔

نہرو لیاقت معاہدے کے بعد پاکستان اور انڈیا میں رابطے بحال ہوئے تو میری نانی میری والدہ اور ماموں کو لئے، جن کی عمریں اس وقت چند ہی سال کی تھیں، پاسپورٹ پر پاکستان آگئے۔ وہ بعد ازاں راولپنڈی کے علاقے صدر میں رہنے لگے۔ ماموں ڈینیز ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد کراچی چلے گئے جہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ ریڈیو آزاد کشمیر سے بطور سینئر پروڈیوسر منسلک ہو گئے۔ ایک اعلی پائے کے ادیب اور شاعر بھی تھے۔ راولپنڈی کے ادبی حلقوں میں ان کا نام نمایاں تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ صحافت سے منسلک ہو گئے اور کچھ عرصہ راولپنڈی جنگ میں میں ایک اعلی عہدے پہ اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔ تھے بہت تلخ مزاج۔

اس رات ان کے پاس رہنے کی میری باری تھی۔ میں نے سنا تھا کہ ڈاکٹر نے انہیں سگریٹ نہ پینے کو کہا ہے۔ اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری چند دن گزار رہے ہیں۔ کبھی ان کا بیٹا ان کے پاس رہتا، کبھی میرا بڑا بھائی، کبھی ایک عزیز اور پھر میری باری آ جاتی ان کے پاس رات کو رہنے کی۔ مجھے ان کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ میرے علاوہ باقی تینوں رات کے تیمار دار انہیں رات گئے ایک سیگریٹ پینے کو دیتے تھے۔

ماموں اپنی باتیں کر کے کہنے لگے، ابے ایک سیگریٹ تو پلا دے ( وہ کراچی میں کئی سال رہنے کی وجہ سے ترنگ میں ہوتے تو یونہی مخاطب کرتے ) میں انہیں ٹال گیا۔ ایک دو منٹ باتیں کر کے پھر کہنے لگے یار ایک سگریٹ تو پلا دے لیکن میں پھر ٹال گیا، انہوں نے میری منت کی کہ ایک سگریٹ پلا دو لیکن میں ڈھیٹ بنتے ہوئے انکار کرتا رہا۔

چار یا پانچ دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ بات آج بھی میرے دل میں ایک خلش کی طرح موجود ہے کہ میں نے ایک مرتے ہوئے انسان کی خواہش کو پورا نہیں کیا۔ ان کی نازک حالت کا تو مجھے اندازہ تھا لیکن یہ بات ذہن میں ہی نہیں آتی تھی کہ وہ فوت ہو جائیں گے۔ زندگی میں تسکین، جب بھی اور جیسے بھی ملے، ایک بڑی نعمت ہوتی ہے، میں نے شدید زخمی، شدید علیل اور شدید تکلیف کی حالت میں بستر مرگ پہ موجود اپنے اکلوتے ماموں کو اس وقت سگریٹ کی تسکین دینے سے انکار کیا جب انہیں یہ معمولی سے چیز چند لمحوں کے لئے ہی سہی، اطمینان او ر سکون دے سکتی تھی۔ ابے دے نا، یار چند سوٹے ہی لگوا دے، انہوں نے ہر طرح سے سگریٹ کی فرمائش کی لیکن میں کم عقل، کم ظرف اس بات کا تعین نہ کر سکا کہ ان کے لئے اس وقت کیا بہتر ہے۔ بشیر احمد وانی المعروف بشیر احمد صرفی 49 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

زندگی اپنی بھی انہی کی طرح تلخیوں میں گزری۔ تلخی مزاج کا حصہ بن گئی۔ تلخیوں کے عنوانات، کہانیاں بہت سی ہیں۔ اس وقت وہ رات یاد آ رہی ہے کہ جس رات راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں ماموں نے شاید زندگی میں پہلی بار مجھ سے ایک دوست کی طرح باتیں کیں، لیکن میں اس رات نہ ان کا بھانجا، نہ عزیز بن سکا اورنہ ہی دوست۔ زندگی میں خلش رہ جانے کے واقعات اور بھی ہیں لیکن شدید تکلیف میں مرتے ہوئے انسان کو تسکین سے دور رکھتے ہوئے بے چین کرنے کی خلش سب سے نمایاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).