دنیا خوشیوں میں آگے بڑھ رہی ہے، ہم حماقت میں ڈوبے ہیں


چندروز قبل عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں فِن لینڈ کو دنیا کا سب سے خوشیوں بھرا علاقہ قرار دیا گیا۔ وہاں کے باسیوں کا قدرت سے لگاؤ اور منفرد طرز رہائش کے خوشی کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ فِن لینڈ کے شہری ہماری نسبتاً کئی گنا زیادہ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ حکومتی پالیسوں پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ بلاوجہ تنقید کے بجائے اپنے اردگرد رہنے والوں کا خیال رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس رپورٹ میں دوسرے نمبر ڈنمارک کو رکھا گیا کیونکہ وہاں کے شہری کام کاج اور نجی زندگی میں بیلنس رکھتے ہیں۔ دنیا کی امیر ترین ریاست ہونے کے باعث ناروے کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا۔ خواتین کو حقوق کی فراہمی اور آزادانہ زندگی گزارنے کے باعث آئس لینڈ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر رہا۔

صحت بخش ماحول کی فراہمی، صحت کے شعبہ میں اصلاحات، سماجی ہم آہنگی، معاشی خودانحصاری کے ساتھ ساتھ اپنی مرضی سے زندگی جینے کی آزادی کے باعث نیدرلینڈ، سوئزرلینڈ، سوئیڈن، نیو زی لینڈ، کینیڈا اور آسڑیابھی رپورٹ میں سرفہرست رہے۔ 156 ممالک کی اس فہرست میں امریکا 19 ویں، پاکستان 67 ویں جبکہ بھارت 140 ویں نمبر پر رہا۔ گیلپ کے تین سالہ سروے کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی اقتصاری فورم نے یہ رینکنگ جاری کی جبکہ گیلپ سروے میں 6 عناصر کو مدنظر رکھا گیا جس میں فی کس آمدن، سماجی ہم آہنگی، پر اعتماد زندگی، فیصلے لینے کی آزادی، سخاوت اور کرپشن شامل تھے۔ اس رپورٹ کے اختتام پر ایک سوال پوچھا گیا کہ آپ کی حکومت نے عام عوام کی خوشیوں کے لیے کیا کیا؟ اس کا جواب تو موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے عوامی نمائندے ہی دے سکتے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم نے اپنی خوشیوں کے لیے کیا کیا؟

چند ہفتے قبل ایک عزیز انتہائی پریشانی کے عالم میں وارد ہوا، استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ روزگار چھن جانے کے باعث گھرکے معاشی حالات کافی حد تک بگڑ چکے ہیں۔ کافی غوروفکر کرنے کے بعد اسے اپنا کاروبار شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ میرے منہ سے اپنے کاروبار کا لفظ نکلتے ہی اس پر سکتہ طاری ہو گیا اور کچھ یوں گویا ہوا کہ ہمارے خاندان میں اتنی چھوٹی سرمایہ کاری سے کاروبار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ایسا کیا تو برادری میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔

اس عزیز کی یہ بات سننے کے بعد مزید حیرانی و پریشانی میں مبتلا ہو گیا کیونکہ گھر میں نوبت فاقوں تک آ پہنچی ہے اور پھر بھی اپنا اسٹینڈرڈکی فکر لاحق ہے۔ اگر ناک کٹوانے سے آپ کے گھریلو حالات بہتر ہو سکتے ہیں تو اس میں قباحت ہی کیا ہے اور ویسے بھی خاندان والے سوائے باتوں اور طعنوں کے اشیاخوردوش کا سامان فراہم کرنے سے تو رہے۔

ہمارے اردگرد رہنے والا ہرشخص کوئی بھی نیا کام شروع کرنے سے قبل ایک انجانے خوف کا شکار ہوتا ہے۔ دراصل یہ خوف ہمارے معاشرے میں کسی وبا کی طرح پھیل چکا ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں پاکستانی قوم کو سب سے پہلے اپنی عزت کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ بیٹے یا بیٹی کی شادی ہمارے معاشرے میں اس کی عمدہ مثال ہے۔ براداری، خاندان اور اپنے اردگرد رہنے والوں پر مصنوعی رعب و دبدبہ قائم کرنے کے لیے نہ صرف بڑے اور مہنگے ہوٹلز کی بکنگ کروائی جاتی ہے بلکہ ہر طرح کے لوازمات پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اگر بیٹی کی شادی کی بات کی جائے تو جہیز جیسی لعنت سے بڑھ کر ہمارے معاشرے میں بری چیز کیا ہو سکتی ہے؟ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے والدین بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں اور بعد میں حکومت اور معاشرے کو کوستے ہیں۔

تعلیم کی بات کی جائے تووالدین کی کوشش ہو تی ہے کہ ان کا بیٹایا بیٹی کو اچھے ادارے میں داخلہ ملے، چاہے ان کی استطاعت ہو یا نہ ہو کیونکہ دیگر رشتہ داروں کی اولاد بھی اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پورے خاندان میں ان کی عزت کا کچومر نکل جائے گا۔ والدین اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کردیتے ہیں کہ کیا ان کے چشم وچراغ کس شعبہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ریسرچ کے میدان میں اتنا پیچھے ہے۔

اس انجانے خوف کا سب سے بڑا نقصا ن بے روزگاری ہے کیونکہ روزگار شروع کرنے سے قبل طبقاتی تقسیم کا تصور ہمارے ذہن میں کسی ڈراؤنے خوا ب کی مانند دوڑنے لگتا ہے۔ دیگر ممالک میں طبقاتی تقسیم کو مکمل طور پر قطع نظر رکھتے ہوئے نوجوان کسی بھی شعبے کا انتخاب اپنی دلچسپی اور لگاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اگر کسی امیر زادے کا بیٹا وڈن آرٹ میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس کا یہ شوق پورے خاندان سے بغاوت ثابت ہو گا۔

” گھر، فیملی، بیوی اور بچے“، یہ چند ایسے الفاظ ہیں جن کو پڑھ کر یا سن کر خوشی کا تصور ہوتا ہے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے اردگردکئی افراد موجود ہیں جو اپنے بیگمات کے ساتھ وقت گزارنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ دفتر کے کولیگ کی شادی ہوئی، چند روز تو چھٹی ہوتے ہی گھر روانہ ہو جاتا تھا لیکن پھر چھٹی کے بعد بھی گھرجانے کے بجائے رات گئے تک دفتر بیٹھا رہتا تھا۔ حقیقت جاننے پر معلوم ہوا کہ موصوف خاندان پر رعب ڈالنے اور سسرالیوں پراپنی محنت کو عیاں کرنے کے لیے گھر دیر سے جاتے ہیں، یعنی کہ معاشرے میں مصنوعی عزت کی خاطر اپنی خوشیوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔

بیوی کو پارک یا مارکیٹ میں فقط اس لیے نہیں لے کر جاتے کیونکہ گردوپیش سے رن مرید جیسے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ اگر اپنی عزت کی اتنی ہی فکر ہے تو شادی سے اجتناب کریں تاکہ کسی ذی روح کی زندگی آپ کی وجہ اجیرن نہ ہو۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شخص کی انا اس کے جذبات پر حاوی رہتی ہے۔ ہم اپنے سے زیادہ ان باتونی لوگوں کی رائے پر عمل کرتے ہیں جن کی معاشرے میں کوئی وقعت بھی نہیں ہوتی۔

کسی سے بلاوجہ متاثر ہونا احساس کمتری کی دلیل ہے جس سے نہ صرف آپ کی شخصیت کی تضحیک ہوتی ہے بلکہ خود اعتمادی بھی رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے۔ اگر آپ کوئی کاروبار یا کوئی اہم امور سر انجام دینا چاہتے ہیں تواردگرد ہونے والی چہ مگوئیوں پر توجہ دینے کے بجائے اپنے فیصلے پر ڈٹ جائیں اور پوری لگن کے ساتھ اس کام کو سرانجام دیں۔ اگر موجودہ تعلیمی نظام آپ کو ہنر فراہم نہیں کر سکتا اور بیروزگاروں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے توگھبرانے اور حکومت کو کوسنے کے بجائے اپنا کارروبار شروع کریں۔

دوسروں کے فیصلوں پر تنقید کے بجائے حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اپنے مقصد کو باآسانی پورا کرے اور غلطی کی گنجائش بھی بھی نہ رہے۔ واضح رہے کہ خوشیوں اور اداسیوں کے ذمہ دار آپ خود ہیں، لہذا معاشرے میں موجود انجانے خوف سے نکلیں اور حکومتی پالیسوں پر تنقیدی نشتر چلانے کے بجائے ایسے فیصلے لیں جس سے آپ کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).