کچھ سی پیک کے حوالے سے


(ناصر علی)

\"nasir-ali\"

پاکستان کے دیرینہ دوست چین کی مدد سے بننے والی تجارتی راہداری اج کل پاکستان میں موضوع سیاست بنی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اپنی سیاسی دکان چمکا چمکا کر کاریڈور کاریڈور کھیل رہا ہے۔
عام آدمی بیچارے کو تو یہی بتایا گیا تھا کہ کاریڈور ایک گیم چینجر ہے۔ اور اس سے ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ اب جو مختلف علاقوں خصوصاً خیبر پختون خواہ اور بلوچستان سے احتجاجی اور اختلافی آوازیں کچھ زیادہ بلند ہونے لگیں تو لوگ سوچنے لگے ہیں کہ بھئی اس گیم چینجر میں کچھ چینج تو نہیں ہوا۔ یا کہیں یہ منصوبہ کٹھائی میں تو نہیں پڑ گیا۔ ان لوگوں کے لئے اطلاع ہے کہ کہ منصوبہ میں نہ تو کوئی خاص تبدیلی ہوئی اور نہ ہی منصوبہ بند ہونے یا رکنے والا ہے۔ یہ چین کے لئے نہایت اہم منصوبہ ہے اور کئی بین الاقوامی عوامل اس پر اثر انداز ہو رہے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ کاریڈور بن کے رہے گا۔

پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیا جا چکا ہے۔ چاروں وزراء اعلی (اور شاید گلگت بلتستان کے وزیر اعلی کو بھی ) پورے معاملے کی تفصیل سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ اب جو بھی مخالفت ہوگی وہ بس سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ الیکشن قریب آنے والے ہیں اور قوم پرستوں کو دوسری پارٹیوں کی طرح کوئی نہ کوئی ایشو تو چاہئے تو فی الحال اس سے بہتر کوئی موضوع ہو ہی نہیں سکتا جس سے پبلک کی توجہ حاصل کی جائے۔

لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کونسی باتیں ہیں جو مخالفین کو جواز مہیا کر رہی ہیں۔

وزیر اعظم صاحب نے ایک آل پارٹیز کانفرنس میں کہا تھا کہ اصل روٹ تو مغربی روٹ ہے اور یہ کہ وہ روٹ مشرقی روٹ سے پہلے بنے گا۔

یہ ایک عجیب وغریب بیان بلکہ آ بیل مجھے مار والی بات ہے۔

حضور کو کوئی سمجھائے کہ ہر روٹ ہی اصل روٹ ہے۔ چاہے مغربی ہو مشرقی یا وسطی۔ کسی ایک روٹ کے بننے سے دوسرے پر اثر نہیں پڑنے والا۔ دوسری بات یہ کہ مغربی روٹ مشرقی روٹ سے پہلے بنے گا بالکل غلط ہے۔ نیچے ایک ویب سائٹ کا لنک ہے جس پر سی پیک کے متعلق معلومات اپ ڈیٹ کی جاتی ہیں

http://www.cpecinfo.com/

اس ویب سائٹ پر تمام تفصیلات اور کام کی رفتار چیک کی جاسکتی ہے۔ ابھی تک جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق مشرقی روٹ ہر 60% جبکہ مغربی روٹ پر 15% کام ہو چکا ہے۔

سی پیک کے لئے سینیٹ کی کمیٹی کے چئیرمین تاج حیدر صاحب بتا رہے ہیں کہ فی الحال گوادر نہیں بلکہ کراچی پورٹ کو استعمال کیا جائے گا۔ تو ظاہر ہے کہ مشرقی روٹ ہی پہلے بننا چاہیے۔ لیکن وزیر اعظم صاحب کو نہ جانے کیا سوجھی تھی جو ایسا بیان آل پارٹیز کانفرنس میں دیا جو اب غلط ثابت ہورہا ہے۔

ایک منصوبہ لاھور میٹرو اورینج لائن کا ہے۔ جو سی پیک کا حصہ ہے۔ پہلے پہل تو شہباز صاحب اور احسن اقبال مان ہی نہیں رہے تھے کہ یہ سی پیک کا حصہ ہے۔ اب کہتے ہیں کہ جی یہ سی پیک کا حصہ ہے۔ پتہ نہیں چوبرجی سے شیخو پورہ چوک یا مغل پورہ تک کا سفر اس پانچ سو ملین ڈالرز کے ٹرین میں کر کے سی پیک کو کیا مدد مل سکتی ہے۔ بہر حال یہاں بھی حکومت جھوٹ بول کر اپنا اعتبار کھو چکی ہے۔

مغربی روٹ ہر ابادی کم ہے اور اسی لئے وہاں اسمبلی کی سیٹیں بھی کم ہوتی ہیں جبکہ مشرقی روٹ پر نہ صرف یہ کہ زیادہ سیٹیں ہیں بلکہ ملتان موٹروے سے ن لیگ جنوبی پنجاب میں اہنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس لئے وفاقی حکومت مشرقی روٹ کو پہلے تعمیر کرنے کی خواہشمند ہے کہ الیکشن میں اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ بہر حال ارباب اخبار کو سوچنا چاہئے کہ ایک منصوبہ جو پورے ملک کی مفاد کے لئے ہے کہیں ان کی آپس کی چپقلش اور ذاتی عناد کے باعث صوبوں درمیان نفرت اور دوری کا سبب نہ بن سکے۔

عوام کو بھی جذباتی نعروں کے بجائے تحقیق اور ٹھوس ثبوتوں کے بغیر بات کرنے والے کو نظر انداز کرنا چاہئے۔ ورنہ یاد رکھیں یہ پیارا ملک بہت سی آنکھوں میں کٹھک رہا ہے۔ ایسا نہ ہو ہماری آپس کی کمزوری دشمن کی طاقت بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments