علامہ طاہر القادری اور کرس گیل!


علامہ طاہر القادری پر تمام اعتراضات اور الزامات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کے سب سے بڑے ”انٹرٹینر“ تھے۔ وفاقی دارالحکومت میں رہنے والے برگر گروپوں کو علامہ طاہر القادری نے دوبار اپنے دھرنوں کے ذریعے زبردست تفریح فراہم کی۔ پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں علاقائی میلے ایسی تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ پنجاب میں خاص طور پر ان میلوں کے انعقاد پر لوک فنکار لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ ان میلوں میں ایک دور عالم لوہار اور بالی جٹی کا بھی گزرا ہے۔

علامہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے مشترکہ تعاون سے پیش گئے دھرنوں میں ان علاقائی میلوں کا رنگ غالب تھا۔ عمران خان کے دھرنے میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، ابرارالحق اور جنون گروپ شرکا کی حاضری کا باعث تھے جبکہ علامہ طاہر القادری کے دھرنے میں بھی قلندری دھمال حاضرین کا لہو گرماتی رہتی تھی۔ ان دھرنوں میں یقینی طور پر عارف لوہار بھی حصہ ڈال سکتے تھے مگروہ مسلم لیگ (ن) کے پارٹی گلوکار ہونے کی وجہ سے اس ”ڈی چوکی“ میلے میں شرکت سے محروم رہے۔

تفریح فراہم کرنے والے ان دو سیاسی سرکسوں سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بہت مخظوظ ہوتے دیکھے گئے۔ دھرنوں کو دہشتگردوں سے محفوظ بنانے کے لئے لگائے سیکیورٹی کیمروں میں پولیس اہلکار کارکنوں کی مستیاں دیکھ کر لطف اٹھاتے تھے عمران خان تو چونکہ گزشتہ چالیس سال سے عوام کو تفریح فراہم کر رہے ہیں اس لئے وہ کرکٹ میں بھی عمران خان تھے اور سیاست میں بھی عمران خان ہی ہیں لیکن علامہ طاہر القادری نے شہر اقتدار کے باسیوں کو جس طرح اپنے دھرنوں سے ”انٹرٹین“ کیا انہیں بجاطور پر پاکستانی سیاست کا ”کرس گیل“ قرار دیا جا سکتا ہے، علامہ طاہر القادری صرف چوکوں اور چھکوں کی زبان میں بات کیا کرتے تھے اور عوام کو بلاوجہ کی مبارکیں دے کر اپنا جادو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

سکرپٹ کے عین مطابق علامہ طاہر القادری نے ایک روز پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرکے پورے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ علامہ طاہر القادری نے اچانک دن دیہاڑے اعلان کر دیا تھا کہ اب پارلیمنٹ کے اندر سے نہ تو کوئی باہر جانے پائے اور نہ ہی کوئی باہر سے اندر جائے۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے اراکین بھی گھبرا گئے تھے اور جو اسمبلی ابھی نہیں پہنچے تھے انہوں نے شکر کیا تھا کہ علامہ طاہر القادری کے قہر کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئے۔

علامہ طاہر القادری کا یہ پارلیمانی محاصرہ تقریباً آدھا گھنٹہ جاری رہا اور پھر حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم نہ آنے کے باعث انہوں نے یہ دھرنا ازخود ہی ”ترس“ کھا کر ختم کر دیا تھا۔ علامہ طاہر القادری کے کارکن چونکہ دن رات ڈی چوک میں ہی رہتے تھے لہذا اپنے کپڑے دھوکر وہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے جنگلوں پر ڈال کر اپنا احتجاج دوگنا کر دیا کرتے تھے اور تمام پاکستانیوں کے لئے علامہ طاہر القادری کے دھرنے اور سیاسی جدوجہد مقام عبرت بھی ہے کیونکہ وہ ”کنیڈین پناہ گیر“ تھے اور سیاست پاکستان میں کرتے تھے ان کی سیاست کو پاکستانی عوام نے خوش دلی سے ایسے ہی قبول کیا جیسے لاکھوں گدھوں کا گوشت وہ بکرے کا گوشت سمجھ کر کھا گئے۔

کسی پاکستانی نے مصالحوں کی مسحورکن خوشبو کے بعد گوشت کی اصلیت جانے کی کوشش اور خواہش ہی نہیں کی تاوقتیکہ گدھے کا گوشت بنانے والے خود نہیں پکڑے گئے۔ ایک وقت تھا کہ جب کوئی سیاسی رہنما طاہر القادری کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتا تھا تو وہ یہ زبان گدی سے کھینچنے کی دھمکی دے کر ڈرا دیا کرتے تھے۔ لیکن پھر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ مولانا خادم حسین رضوی نے فیض آباد چوک میں بیٹھ کر اہم ترین لوگوں کے خلاف اجتماعی ”گالم گلوچ“ کرتے ہوئے علامہ طاہر القادری کو بہت ہی برے جانور سے تشبیہ دے ڈالی۔ طاہر القادری یا ان کے کسی ورکر نے مولانا خادم حسین رضوی کی اس جرات پر کوئی جواب دینے کی بجائے اسے ایسے چھوڑ دیا جیسے کوئی ماہر بیٹسمین خطرناک گیند کو چھوڑ دیتا ہے تاکہ نہ زخمی ہو اور نہ آؤٹ ہو۔

علامہ طاہر القادری سیاست سے ریٹائر ہوئے ہیں اور مولانا خادم حسین رضوی کے بارے خبریں ہیں کہ وہ ”ریٹائرڈ ہرٹ“ ہوئے ہیں اور اسلام آباد کی طرف اب مولانا فضل الرحمان چڑھائی کرنے والے ہیں مولانا فضل الرحمان خود کو ایک بڑے امتحان میں ڈالنے جارہے ہیں کیونکہ سرپرستی کے بغیر دھرنا ایک دن کا بھی مشکل ہوتا ہے اور اگر وہ ”دھرنا پچ“ پر جلدی آؤٹ ہو گئے تو علامہ طاہر القادری اور مولانا خادم حسین رضوی نقطہ نظر کے لوگ پراپیگنڈہ کرنا شروع ہو جائیں گے کہ اہل دیوبند کے علما ”فن دھرنا“ سے نا آشنا ہیں۔

ہمارا تو مشورہ ہی ہے کہ ہمارے ان تینوں ہی عالم فاضل رہنماؤں کو اپنی باقی زندگی توبہ استغفار میں گزارنی چاہیے، مولانا فضل الرحمان طویل مدت تک اقتدار میں رہ کر عوام کے لئے کچھ نہ کرنے پر اللہ سے معافی مانگیں اور مولانا خادم حسین رضوی لوگوں کو سرعام گالیاں دینے پر توبہ استغفار کریں اور علامہ طاہر القادری کنیڈین شہری ہو کر پاکستان کے سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دینے پر توبہ کریں۔ توبہ کے لئے یہ بہترین وقت ہے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat