رات ڈھلتی نہیں (غزلیں ) از ڈاکٹر ایوب ندیم
رشید احمد صدیقی نے غزل کو اردو شاعری کی آبرو قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شعبہ نہیں کہ غزل کی جڑیں ہماری تہذیب کی مٹی میں گڑی ہیں۔ اردو شاعری میں سب سے بڑی سرمایہ کاری غزل کی ہے جس نے اردو ادب کے خزانے میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ اردو غزل وہ آئینہ ہے جو ہماری تہذیب، تاریخ اور تمدن کو منعکس کرتا ہے۔ اگر اس میں ایک طرف حُسن و عشق کے نازک جذبات و احساسات جھلکتے ہیں تو دوسری طرف عصری حسیت، سیاسی و معاشرتی حالات کی تصویر کشی اور سامراجی نظام کے خلاف احتجاج بھی دکھائی دیتا ہے۔ اردو غزل ذات سے کائنات تک کا سفر نہایت آسانی سے طے کر لیتی ہے۔ آج بھی اردو غزل کا حُسن، جوانی اور رعنائی اُسی طرح قائم ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو کلیم الدین احمد کی اس رائے کے زیر اثر کہ غزل ایک نیم وحشی صنف شاعری ہے، اردو غزل سے بیزاری کا عنصر بھی دکھائی دیا ہے۔ یہ بیزار لوگ اردو غزل کے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ اُنہیں جدید غزل ایک ہی سانچے میں ڈھلی دکھتی ہے لیکن اس کے باوجود آج تک اردو غزل کو نیا خون ملتا رہا اس کی آبیاری ہوتی رہی اور ہر دور میں نئے غزل گو، اردو شاعری کی آبرو میں اضافہ کرتے رہے۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں جن شعراء نے اردو غزل کے وجود کو پوری توانائی سے برقرار رکھا ہے اُن میں ایک اہم نام ایوب ندیم کا بھی ہے۔
ایوب ندیم 1980 ء کی دہائی میں شاعر کی حیثیت سے ابھرے۔ وہ اردو ادب کے اُستاد، محقق، نقاد، ڈرامہ نگار اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ غزل کی روایت سے جُڑے ہوئے خوش فکر شاعر بھی ہیں۔ غزل کی اسی روایت کو پکڑے ہوئے جب 1998 ء میں اُنھوں نے چاند کے ساتھ ہمسفری کا شرف حاصل کیا تو اس سرشاری میں وقت کے سمندر پر بہت دور تک بہتے چلے گئے۔ بیس سال بعد واپسی ہوئی تو معلوم ہواکہ اب رات ڈھلتی نہیں۔ جی ہاں! ان کا پہلا شعری مجموعہ ”چاند میرا ہم سفر“ تھا جو 1998 ء میں شائع ہو کر خاص وعام سے سند قبولیت حاصل کر چکا ہے اورادبی شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل ایک کتاب ”ہوئے ہم کلام“ اور بچوں کی نظموں کا مجموعہ ”ہم پھول، ہم ستارے“ بھی زیور طبع سر آراستہ ہوچکے ہیں مگر اس وقت ہمارے پیش نظر ان کی غزلوں کا تازہ مجموعہ ”رات ڈھلتی نہیں“ ہے جو 2017 ء میں سامنے آیا ہے۔
ایوب ندیم جدت طراز نہیں ہیں وہ کسی نئے تجربے کے قائل بھی نہیں ہیں۔ اُن کے ہاں نئے اسالیب اور تراکیب کی فسوں کاری بھی نہیں۔ انہوں نے پہلے سے برتے ہوئے اسالیب اور استعاروں کو اس خوبی سے استعمال کیاکہ لفظوں میں ایک نئی جگمگاہٹ پیدا ہو گئی۔ یہی اُن کا کمال ہے۔ میں جب بھی اُن کی شاعری کے نئے مجموعے رات ڈھلتی نہیں پرہتا ہوں تو چند الفاظ چند تراکیب مجھے آگے بڑھنے سے روک دیتی ہیں۔ مثلاً لفظ پانی کو دیکھ لیجیے ان کے ہاں کس کس طرح شاعری میں جلوہ گر ہوا:
سرِ مژگاں ستارے کہہ رہے ہیں
کہ پانی ساحلوں تک آ گیا ہے
اسے تو اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر لے گیا پانی
مجھے تو اپنے قدموں پر ہی دریا پار کرنا ہے
چھپا رہا ہے میاں! کیوں تو اپنا غم مجھ سے
مجھے بھی دیکھ، مری آنکھ میں بھی پانی ہے
مجھ کو رہنا ہے تیری آنکھوں میں
پانیوں میں فشار آنے تک
تمہارے پیار کا دریا عبور کرنے کو
سفینہ چھوڑ دیا پانیوں پہ سر رکھا
جسم اب تک پڑا ہے ساحل پر
پانیوں میں اُتر گئی صورت
اور پھر وہ پوری غزل جس کی ردیف ہی ”پانی میں“ ہے :
وہ ہے یا ماہتاب پانی میں
کِھل رہا ہے گلاب پانی میں
جھیل روشن ہوئی کناروں تک
کس نے رکھی کتاب پانی میں
چاند کے حوالے سے توایوب ندیم، میراورناصر کاظمی کے قبیلے کے فرد لگتے ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ ماہ زدگی کا شکار کبھی نہیں ہوئے۔ وہ چاندکو ہمسفر بناتے ہیں لیکن چاند نکلنے سے بھی دل کو بہلاتے ہیں۔
کیا خبر تھی کہ ڈوب جائے گا
چاند کو ہمسفر بنایا تھا
چاند نکلے کہ رات ڈھل جائے
دل کسی طور تو بہل جائے
رات ڈھلنے کا تصور نہ جانے ایوب ندیم کے حواسوں پر کس طرح طاری ہے کہ اسے وہ اپنی زندگی کی ناسودگیوں اور محرومیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ بظاہر تو وہ قنوطیت کا شکار نظر نہیں آتے بلکہ اُن کے ہاں ایک رجائی لہجہ اور سوچ بھی پروان چڑھتی دکھائی دیتی ہے لیکن جب وہ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ اُن کے غم کی لمبی رات ڈھلتی نہیں ہے دن نکلتا نہیں تو اُن کی رجائیت قنوطیت کے پردے میں چھپ جاتی ہے :
زخم بھرتے نہیں، دل سنبھلتا نہیں
رات ڈھلتی نہیں، دن نکلتا نہیں
دوسری طرف وہ لمس کے پھولوں سے ایسا سحر جگاتے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ طلسم ہوش رُبا کی ملکہ بہار نے اپنی زلفوں کو کھول کر جھٹک دیا ہے اور ایک ہجوم اُس کا دیوانہ ہو کر اپنے گریباں چاک کیے ڈورتا چلا جا رہا ہے :
اُس کے بدن سے لے گئی کیا کیا ہوا، نہ پوچھ
خوشبو، یہ رنگ و نور، یہ حُسن ادا، نہ پوچھ
پھر کیا کہوں کہ صحنِ گلستاں میں کیا ہوا
جب وا ہوا ذرا سا وہ بندِ قبا، نہ پوچھ
ذات، حیات اور کائنات ایوب ندیم کے ہاں ان تینوں کی تفہیم بھی موجود ہے اور ان کا آپس میں ربط بھی، وہ ذات سے کائنات تک کا فاصلہ کسی بھی ا ضمحلال کے بغیر طے کر لیتے ہیں۔ اُن کے ہاں حیات، دنیا، یہ جہان اس سے آگے کی کائنات کے بارے میں کوئی ابہام موجود نہیں۔ وہ اپنی ذات کے اسرارسے بھی آگاہ ہیں اور اپنے شعور سے جاننے والے شش جہات کو بھی پہچانتے ہیں۔ وجود اور ذات اُن کے ہاں کسی اجنبی شے کا نام نہیں۔
یہی حیات نہیں، اور ہے حیات ابھی
کہ اس جہان سے آگے ہے کائنات ابھی
نہ جانے کتنے ہی اسرار مجھ سے پنہاں ہیں
مرے شعور نے جانے ہیں شش جہات ابھی
میں کس وجود کا حصہ ہوں، پھر بتاؤں گا
یہ راز ڈھونڈنے نکلی ہے میری ذات ابھی
تیکنیکی اعتبار سے ایوب ندیم عروضی نہیں ہیں لیکن اپنی غزل میں لمبی ردیفوں کی تکنیک عروضی ساخت کو خراب کیے بغیرانتہائی مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ”بھولا نہیں ہوں میں“ ردیف والی غزل:
اُس نے کہا جو کان میں بھولا نہیں ہوں میں
آئی تھی جان جان میں بھولا نہیں ہوں میں
صبح وصال یار سے شام فراق تک
کیا کیا رہا گماں میں بھولا نہیں ہوں میں
رات ڈھلتی نہیں صرف چونسٹھ غزلوں پر مشتمل ہے۔ اب یہ تو نہیں ہے کہ بیس برس میں ایوب ندیم نے صرف اتنی ہی غزلیں کہی ہوں۔ غزلوں کی یہ تعداد اصل میں شاعر کے حسنِ انتخاب کا مظہر ہے۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر :
”یہی وجہ ہے کہ اس مجموعے کا ہر شعر ہی قائم بالزات ہے، یعنی اسے تنقید کی بیساکھی کی ضرورت نہیں۔ “
غزلوں کا یہ خوب صورت مجموعہ تین صد روپے کے عوض سنگت پبلشرز، 25۔ سی، لوئر مال، لاہور سے دستیاب ہے۔
- رات ڈھلتی نہیں (غزلیں ) از ڈاکٹر ایوب ندیم - 25/09/2019
- طاہرہ اقبال کا ناول ”نیلی بار“ - 12/09/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).