قصور کے بچے بے قصور


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کے بھیس میں کئی قسموں کے جانور بھی ہم میں پائے جاتے ہیں جن میں کچھ کم خطرناک جبکہ کچھ نہایت خطرناک جانور بھی ہیں۔ ہم آدم خوروں کے بارے میں جانتے ہیں کہ جب وہ بھوکا ہو تو پیٹ بھرنے کے لئے کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے اور ایسے میں وہ جسم کہ کسی بھی حصے کو نوچتے ہوئے کئی ٹکڑے کر دیتا ہے اور پھر بھوک مٹ جانے پر باقی کانپتے اعضاء بکھیر کر واپس لوٹ جاتا ہے۔ لیکن! اس کہ باوجود انسان سے زیادہ خطرناک کوئی جانور نہیں ہوسکتا اور اس حوالے سے بھی ہم یعنی اشرف المخلوقات نے جانوروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایسے انسان جانوروں سے زیادہ بے حس، خوفناک، اور جنسی ہوس سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی معمولی باتوں پر قتل و غارت گری ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں اور چند روپوں کی خاطر یا فطرت سے مجبور کئی لوگ اسی تاک میں رہتے ہیں کہ کوئی موقع ملے اور وہ جانور کا روپ دھار لیں۔

چند روز پہلے ایک بار پھر ضلع قصور میں معصوم بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات رونما ہوئے ہیں اسی سے متعلق کچھ روز سے ایک خیال بہت اذیت دے رہا ہے ایسی بات جو کہ بہت خوفناک، پریشان کُن اور نہایت تکلیف دہ ہے کہ کیا کوئی درندگی کی بھی انتہا ہے یا نہیں؟ یہ ایسا کون سا جانور ہے؟ جو حیوانیت کو بھی شرمندہ کیے ہوئے ہے۔ ایسا خوفناک انسان نما درندہ جو معصوم بچوں کو ایسی موت مارتا ہے جسے دیکھ کر زمین و آسمان بھی کانپ جاتے ہیں۔

دنیائے تاریخ خوفناک حادثات اور واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن جب میں ان معصوم بچوں کے طریقہء قتل کے بارے میں سوچتا ہوں تو اپنے انسان ہونے پر بھی شرمندگی ہوتی ہے۔ پھولوں جیسے ننھے بچوں کے گلوں کو دبا کر بد فعلی کرنا اور تب تک کرتے رہنا کہ جب تک ان کے جسم سے جان نہ نکل جائے۔ کیا کوئی اس سے زیادہ خطرناک مخلوق ہوسکتی ہے؟ ان بچوں کی چیخ و پکار بھی جن پر اثر نہ کرتی ہو یہ درندے تو معصوموں کے کانپتے نازک ہاتھ پاؤں باندھ دیتے ہوں گے تاکہ تسلی سے جنسی ہوس پوری کی جاسکے اس قدر تکلیف دہ موت شاید اور کوئی نہیں ہو سکتی۔

وہ جگہ بھی خون کے آنسو روتی ہوگی جہاں اس قدر خوفناک ترین گناہ سر زد ہوا ہو۔ تمام عیبوں سے لاتعلق اور ظالم دنیا سے نہ واقف بچے جو معمولی زخم بھی برداشت نہیں کر پاتے انہیں اتنی بے رحمی اور بے دردی سے موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے اور پھر ان کی لاشوں کو وہیں کسی کھلے میدان یا کوڑے کرکٹ میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کیا یہ دنیا ان بچوں کے لئے کسی دوزخ سے کم ہے؟

ایسے درندے اور خطرناک قاتل ہمارے ارد گرد بھی موجود ہیں۔ دیکھنے میں انسانوں جیسے لگنے والے یہ حیوان یہیں کہیں گھوم پھر رہے ہیں اور اپنی ہوس کے مطابق کسی نہ کسی کو نشانہ بنانے کی تاک میں لگے رہتے ہیں نہ جانے کب کون ان کے ہتھے چڑھ جائے۔ ایسی حیوانیت سے نمٹنے کے لئے یہ نہایت ضروری اور ہم پر واجب ہے کہ ایسے جانوروں کو سر عام پھانسی دی جائے اور لاش کو نشان عبرت کے طور پر گلنے سڑنے کے لئے لٹکا دیا جائے تاکہ انہیں قبر بھی نصیب نہ ہو پائے۔

میرے نزدیک سر عام سزائے موت بھی ایسے گھناؤنے جرم کے لئے ناکافی ہے۔ یہ مطالبہ نیا تو نہیں لیکن اس پر عمل درآمد تا حال نہیں ہوسکا۔ یقیناً قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت اور بھی کئی عناصر ہیں جن کی کوتاہی اور نا اہلی کی وجہ سے مسلسل ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایسے ظالم مجرموں کو پکڑنے کے لئے قصور شہر سمیت گرد و نواح کے علاقوں میں کرفیو بھی نافذ کرنا پڑے تو کم ہے۔ اگر زینب قتل کیس سمیت دیگر ایسے واقعات میں ملوث مجرموں اور ان کے سہولت کاروں کو بروقت سر عام تختہ دار پر لٹکایا جاتا اور عبرتناک سزائیں دی جاتیں تو شاید دوبارہ ایسا واقعہ پیش نہ آتا۔

بچوں سے زیادتی جیسے جرائم کے مقدمات کو سننے کے لئے خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جانی چاہئیں جہاں دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں فیصلے سنائے جاسکیں۔ سول سوسائٹی اور تمام شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی اس بربریت کے خلاف آواز بلند کرنا چاہیے نہیں تو پتہ نہیں کب تک یہ درندگی جاری رہے گی اور نہ جانے مزید کتنے معصوم بچے اس گھناؤنے جرم کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).