زرگزشت از مشتاق یوسفی


”ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب انسان میں اپنے آپ پر ہنسنے کا حوصلہ بھی نہیں رہا، اور دوسروں پر ہنسنے سے اسے ڈر لگتا ہے۔ “
مشتاق یوسفی

اپنے آپ پر ہنسنے سے پہلے انسان کو بہت بہادر بننا پڑتا ہے۔ اپنی شکستہ حالت کو قبول کرنا ہوتا ہے اپنی خستہ حالی کو تمغے کی طرح سینے پر سجانا پڑتا ہے۔ تبھی تو ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا! کھل کر رونے کے بعد ہی ہنسنے کی باری آتی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کی کتاب زرگزشت پڑھ کر یوسفی صاحب کی بہادری پر ایمان آ جاتا ہے۔

آج کے دور میں جب انسان اپنے اصل چہروں میں پہچانے نہیں جاتے، ڈیپی کچھ اور حسن دکھاتی ہے اور ملاقات اور کوئی چہرہ دکھاتی ہو، جہاں اپنے کردار، اخلاق اور صورت میں پھول کلیاں اور رنگ پروئے دکھانے کے ہزار طریقے ہوں مگر خود کو اچھا بنانے کا ایک بھی طریقہ فیشن میں نہ ہو، خود کو برتر دکھانے کے ہزار حیلے ہوں وہاں پر ایک ایسے مزاح نگار کو پڑھنا جس کی ٹوٹی چپل سے ڈوبے گھر تک کی تلخی میں اس نے ہنسی اور شگوفے بکھیر دیے ہوں اسے پڑھ کر اگر سویٹ اینڈ سار کا لطف آیا تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ انہیں پتھروں پر چل کر طنزو مزاح کی کہکشائیں جنم لیتی ہیں۔ ذخموں کو زخم کہا جائے تو دنیا تضحیک سے ہنستی ہے اور بے اعتنائی برتتی ہے مگر زخموں کو روشنی، اور پھول کہہ کر شگوفہ بنادیا جائے تو یہی دنیا آپ کے ساتھ محبت سے ہنسنے اور پیار کرنے لگتی ہے۔

یوسفی صاحب کو ہم نے پہلی بار تب ہی پڑھا جب پچھلے ہی برس ان کی وفات پر ہم بھی کچھ آنسو بہا چکے تھے۔ اس سے پہلے کئی سال مطالعہ نہ ہوا اور مطالعہ کے اوقات حاصل ہوئے تو ہر پسندیدہ کتاب تک رسائی نہ تھی۔ چناچہ اس بار پاکستان گئے تو یوسفی صاحب کی تمام کتابیں خرید لائے۔ اور جب زرگزشت سے مطالعہ شروع کیا تو یہی افسوس ہوا کہ آج سے پہلے کیوں نہ کیا۔ کہ یہ کتابیں تو ہماری بہت قریبی اور گہری دوستی کے قابل تھیں۔ کتابیں پڑھتے ہوئے ہنستے کئی بار انگریزوں کو دیکھا مگر کتاب پڑھ کر قہقے لگاتے شاید خود کو بہت طویل عرصے بعد دیکھا۔

اس سے پہلے شاید گریڈ بارہ میں پطرس بخاری کے مضامین پڑھ کر ہنسے ہوں گے۔ کہ اس کے بعد اردو میں کوئی بھی طنزو مزاح کی کتاب پڑھنے کا موقع نہ ملا اور کچھ ہماری ناک بھی سنجیدہ موضوعات سے نیچے کم ہی اترنا پسند کرتی تھی۔ تو اس کتاب کا ایک بڑا فایدہ تو یہ بھی ہے کہ یہ تنہائیوں اور زندگی کی سختیوں کے نیچے دب کر آپ کی لاف لائین ختم نہیں ہونے دیتی اور ان کا باقاعدہ مطالعہ آپ کو روزانہ کئی بار کھل کر ہنسنے کے کثیر مواقع فراہم کرتا ہے۔ آپ کو لاف تھراپی کے لئے اکیلے بیٹھ کر قہقہے لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ کتاب اس میں آپ کا بھرپور مدد اور ساتھ دے سکتی ہے۔

کوئی مصنف پہلی بار پڑھا جائے تو کم سے کم پچاس صفحات مصنف کے مزاج کو سمجھنے اور اس میں ڈھلنے میں لگتے ہیں۔ تو شروع میں خاصی گھمبیر اردو نے کچھ پریشان کیا اور یوں لگا کہ اس مشکل تراکیب میں سے مزاح ڈھونڈنا خاصے خون جگر کا کام ہو گا مگر پچاس صفحات تک پہنچتے پہنچتے تراکیب اور الفاظ کی عادت ہونے لگی اور پھر ان سے لطف آنے لگا۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ صرف طنز و مزاح کی کتاب ہے جس میں صرف قہقے بھرے ہیں تو آپ سخت غلط فہمی کا شکار ہیں۔ کچھ بے ساختہ قہقوں کے ساتھ ساتھ یہ ایک انتہائی گھمبھیر بیانیہ بھی رکھتی ہے جس کی فطرت میں سوز ہے۔

لطف، تکلیف اور درد آپس میں اس قدر گندھا تھا کہ اکثر تو دل پریشان ہو جاتا تھا کہ اس بات پر ہنسنا زیادہ ہے کہ رونا زیادہ ہے۔ یوسفی صاحب کی تحریر لڑکیوں کے دکھوں جیسی ہے کہ جس میں ”ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ!“

”مفلسی میں جوتا گیلا“ اپنے مفلس جوتے کی ہجو کرتے کرتے بیچ میں بیوی کے بارے میں گفتگو کرتے ایک واقعہ بیان کیا جسے پڑھ کر انسان ہنستے ہنستے ٹھہر جاتا ہے۔ اور ایک خموشی طاری کر لیتا ہے۔

”کپڑوں پر اک رقعہ رکھا ملا جس پر لکھا تھا کہ رات میں تمھیں بتا نہ سکی۔ ڈاکٹر نے مجھے یرقان بتایا ہے۔ خوامخواہ ڈھیر ساری دوائیں اور انجیکشن لکھ مارے ہیں۔ میں واپسی پر پاکستان چوک کے ہومیوپیتھ سے دوا لیتی آؤں گی۔ زرد رنگ تمھارا فیورٹ رنگ بھی تو ہے۔ “

ایک ہی لائن میں دکھ درد اور محبت کی پوری داستان کہہ دینے کا ہنر سیکھنے کے لئے صرف یہ لائن کافی ہے۔

اور یہ محض ایک ہی واقعہ نہیں۔ طنزو مزاح میں لپٹے اوپر نیچے کے رنگ برنگے فقروں میں جا بجا بکھرے زخم آپ کو کھلے عام ملیں گے۔

جہانگیر بکس کی شائع کردہ اس کاپی میں ایک بڑی خامی یہ تھی کہ اس کے دائیں بائیں اور اندر باہر کہیں پر بھی یوسفی صاحب کی تصویر نہیں لگائی گئی تھی۔ ایک مصنف کی کتاب پڑھتے اس کے الفاظ پر سر دھنتے اور اس کے ساتھ بآواز بلند قہقہے لگاتے انسان بار بار ذہن میں اس چہرے کو لانے کی کوشش کرتا ہے جو آپ سے گفتگو میں مصروف ہو۔ مگر ایسا ہو نہ سکا کہ ہر بار جب بھی کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھا اس میں یوسفی صاحب کی کسی بھی تصویر کو موجود نہ پایا۔

بلآخر خود یوسفی صاحب کی دو سگنیچر تصاویر کا پرنٹ نکال کر انہیں کتاب پر پیسٹ کیا تو کتاب میں ایک کاملیت کا احساس پیدا ہوا۔ مصنف کتنا ہی قدیم، کتنا ہی مقبول اور زبان زد عام کیوں نہ ہو، ہر دور میں اسے پہلی بار پڑھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں اور میرے خیال میں ایسے لوگوں کے لئے کتاب کی شروعات یا اختتام پر ایک مختصر تعارف اور تصویر بہت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).