مصر کے بعد عرب بہار ثانی تحریک کا سلسلہ دیگر ممالک میں بھی پھیلنے والا ہے


مصر میں موجودہ صدر اور سابق آرمی چیف عبدالفتح السیسی کو کرپشن کے الزامات کے تحت شدید عوامی مظاہروں کا سامنا ہے۔ اس سے قبل عوامی انقلاب کی ایک ایسی لہر اٹھی تھی جس میں 2013 میں منتخب ہونے والے اخوان المسلمون کے رہنمامحمد مرسی کو برطرف کرکے سابق آرمی چیف عبدالفتح السیسی نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ اخوان المسلمون کی حکومت کو اسلام پسند جماعت سمجھا جاتا تھا اس لئے مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت سے خائف ہو کر اقتدار پر قبضہ کیا گیا تھا۔

اخوان المسلمون کی حکومت کے خلاف تحریک کو کچھ عرب ممالک نے اپنے شاہی اقتدار کے لئے خطرہ محسوس کیا تھا تو دوسری جانب امریکا سمیت کئی مغربی ممالک میں مصر میں اسلام پسند حکومت کے آنے سے شدید تحفظات بھی سامنے آئے تھے۔ موجودہ صدر کی حمایت میں صدر محمد مرسی کو معزول وگرفتار کرنے پر عالمی برادری نے خاص ردعمل نہیں دیا تھا۔ عبدالفتح السیسی نے مصر کی آئین میں تبدیلی کرکے اپنے اقتدار کی مدت 2022 سے بڑھا کر 2030 تک کر لی تھی۔

تاہم عبدالفتح السیسی پر کرپشن کے شدید الزامات کے بعد تحریر اسکوئر دوبارہ آباد ہونا شروع ہوا اور عبدالفتح السیسی کو عوام نے ایک ہفتے کی مزید مہلت دے دی ہے کہ وہ استعفیٰ دے کر اقتدار چھوڑ دیں۔ مصر میں سیاسی و فوجی مشترکہ ماڈل کا نظام اپنایا گیا ہے، لیکن اس نظام سے عوام کو ثمرات نہیں مل سکے۔ عبدالفتح السیسی اس وقت عوام کے شدید دباؤ میں ہیں گوکہ انہوں نے صدر مرسی کی حکومت گرانے کے بعد سے ابھی تک ایمرجنسی نافذ کی ہوئی تھی۔

لیکن عوام اور فوج کے درمیان پر تشدد مظاہروں اور حکومت کی جانب سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عبدالفتح السیسی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد تو کررہے ہیں لیکن مصر کے عوام کا سخت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے اور سوشل میڈیا سے اٹھنے والی تحریک نے مصر کی حکومت کے لئے مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ توقع یہی ہے کہ مصر حکومت عوامی دباؤ کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کرسکے اور عبدالفتح السیسی کو اقتدار چھوڑنا پڑے۔

مصر میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف متحدہ عرب امارات کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے جو ان مظاہروں کو مصری ریاست اور اداروں کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات مظاہروں کو مصر کے عد م استحکام کی وجہ سمجھ رہی ہے۔ مصر میں جاری مظاہرے ’عرب بہار‘ کا ایک ایسا تسلسل ہے جس سے عرب ممالک میں آمریت و بادشاہت کو خطرات لاحق ہوئے، حسنی مبارک کی طویل آمریت کا خاتمہ تو اخوان المسلمون نے کیا لیکن اندرونی و بیرونی سازشوں نے انجینئر محمد مرسی کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا یہاں تک دوران سماعت عدالت میں مرسی کی موت واقع ہوئی جس کا ذمے دار مصر کی حکومت کو سمجھا گیا۔

اسی طرح لیبیا کے حکمران معمر قذافی کو قتل کردیا گیا، تیونس، یمن، لیبیا میں 2011 کے اوائل میں حکمرانوں کے خلاف تحریکیں شروع ہوئیں۔ جمہوریت کو بادشاہت اور آمریت سے بہتر سمجھا گیا۔ شام میں ابھی تک جنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ واضح رہے تیونس میں دسمبر 2010 میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو میرٹ کے باوجود سرکاری ملازمت نہ ملنے کی وجہ اور خود سوزی کے بعد سے عرب بہار جیسی تحریکوں کا آغاز ہوا تھا۔ مصر، شام، یمن، ایران، سعودی عرب، اس وقت پھر ایک ایسی ہی جنگ میں الجھ چکے ہیں۔

یمن و شام کے پس پشت ایران ہے۔ جو سعودی عرب کے خلاف حوثی باغیوں و حزب اللہ کی مدد کررہا ہے۔ موجودہ حالات سعودی عرب اور ایران کو جنگ کے قریب لا رہے ہیں۔ سعودی آئل تنصیبات پر حملوں کے بعد تحقیقات میں ایران کی جانب سے حملے کے شواہد نے خطے میں جنگ کے مہیب سائے بڑھا دیے ہیں۔ مصر، سعودی عرب، لیبیا، ایران اور شام کے سیاسی معاملات پر اگراجمالی جائزہ لیا جائے تو امریکا کامتنازع کردار بڑا نمایاں نظر آتا ہے۔ جو آمریت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں بڑامنظم کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک کو عوام کی فلاح کے لئے سنجیدہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ اگرمسلم اکثریتی ممالک اپنے رجحانات کو درست سمت نہین لے جاتے تو عرب بہار جیسی تحریکوں کا سلسلہ دیگر ممالک میں بھی پھیلتا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).