بچوں کا اغوا!


کل صبح ساڑھے نوبجے سے بچہ اغوا ہے۔ ماں باپ بیچارے مارے مار ے پھر رہے ہیں اور بچے کا کوئی اتا پتہ نہیں۔ بچے کے دوست نے بتایا کہ دو موٹر سائیکل سوار بچے کے پاس آئے پیسے دیے اسے اور ساتھ بٹھا کر لے گئے۔ کتنے معصوم ہوتے ہیں یہ ننھے پھول۔ انھیں کیا پتہ کہ دس بیس روپے کی چیجی جان بھی لے سکتی ہے۔ پتہ نہیں اب وہ بچہ کیسا ہوگا اور کہاں ہوگا۔ ہوگا بھی یا۔ اللہ نہ کرے۔ صبح نماز میں بہت دعائیں کیں اس کی سلامتی کے لئے۔

ایک ماں کے لئے تو قیامت ہی برپا ہوجاتی ہے پر جو تکلیف، جو اذیت بچے کے مقدر میں آئی اس کا تو کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا۔ کیا ہورہا ہوگا اس بچے کے ساتھ۔ میں اسی سوچ کی تکلیف میں ہوں۔ پہلے وقتوں میں مائیں روتی تھیں کہتی تھیں کہ جانے میرے بچے نے کھانا بھی کھایا ہوگا کہ نہیں وہ بھوکا ہوگا۔ ڈر رہا ہوگا۔ رورہا ہوگا۔ لیکن آج کے دور میں فکریں اور ہیں۔ کہیں بچوں کے ساتھ حیوانی کھیل نہ کھیلا جارہا ہو۔ بچے کے ہاتھ پاؤں سلامت ہوں۔ گردے پورے ہوں۔

اور لکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں مگر کتنی تکلیف کی بات ہے کہ کرنے والوں میں ہر طرح کی ہمت آجاتی ہے۔ گھناؤنے افعال کرنے کے لئے۔ انھیں معصوموں پہ ترس بھی نہیں آتا کہ یہ کسی کے آنگن کے ان گنت پھولوں میں سے ایک سہی مگر ہیں تو پھول نا۔ ان سے بھی ان کا رب ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے پھر یہ لاوارث کیسے ہیں۔

ایسے کتنے ہی بچے آئے دن اٹھا لئے جاتے ہیں پھر اس کے بعد ان کا ملتا کیا ہے؟ کوڑے کے ڈھیروں، ندی نالوں پہ پڑے ہوئے یہ نوچے ہوئے پھول جن کے بارے میں جان کر ہر آنکھ اشکبار ہوجاتی ہے ہر دل تڑپ اٹھتا ہے اور ہر ماں کی روح کانپ جاتی ہے۔ لیکن بحیثیتِ معاشرہ یا فردِ واحد ہم اپنے تئیں اس سب کے سدِ باب کے لئے کرتے کیا ہیں؟ کچھ نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔

بچوں کا اغوا بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے اور حالت یہ ہے نہ ریاست اس طرف توجہ دے رہی ہے، نہ لوکل گورنمنٹس، نہ پولیس نہ ماں باپ اور سب سے بڑھ کر یہ معاشرہ! چند دنوں کے لئے سوشل میڈیا پہ شور مچ کے ختم ہوجاتا ہے۔ مگر کیا اس مسئلے کے سدِباب کے لئے کوئی آگے بڑھ کر کوئی حل پیش کرتا ہے۔ ہمارے ملک کے تو سیاسی مسائل ہی ختم نہیں ہوتے۔ ہر آنے والی گورنمنٹ پچھلی گورنمنٹ کی کرپشن کے خلاف صف آرا ہوجاتی ہے۔ عوامی مسائل کو دیکھ کر بس دل کڑھتا رہتا ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس بچے کے اغوا کا الزام کس کے سر دھراجائے۔ بھٹکے ہوئے حیوانوں کے نام جن کے اندر خوفِ خدا نہیں، ریاست کی بے حسی کے نام، پولیس کی کرپشن کے نام یا والدین کی عدم توجہی کے نام۔ اس عمر کے بچے کا صبح ساڑھے نو بجے کسی بھی پارک یا گراؤنڈ میں ہونا ریاستی غیر ذمے داری کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی غیر ذمے داری کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن پاکستان میں لوئر مڈل کلاس کے بچے اکثر سکولوں میں نہیں بلکہ سڑکوں پر مختلف حالات میں پائے جاتے ہیں۔

بیکری سے باہر نکلی تو ایک سات، آٹھ سال کی بچی چھوٹے چھوٹے کھلونے بیچ رہی تھی۔ اتنی چھوٹی سی بچی۔ میرے بیٹے سی بھی چھوٹی۔ مجھے اس کے معصوم ہاتھوں، اس کی ننھی سی آواز پہ اتنا پیار آیا کہ سوچا اسے کچھ پیسے ایسے ہی پکڑادوں پھر خیال آیا ہمارے ملک میں غربت سے زیادہ جگہ جگہ پر الجھتے ہوئے فقیروں کے مافیا کا آگے ہی بڑا زور ہے۔ اس بچی سے بلاضرورت کھلونے لے کے میرے ہاتھ میں اس وقت جتنے پیسے تھے، اسے پکڑادیے۔ وائے افسوس کہ پیسے تھے بھی بہت کم کہ میں اور چھوٹا بھائی صرف ڈبل روٹی کے بہانے یوں ہی لاہور کی سڑکوں کی رونق دیکھنے نکلے تھے۔

کیا یہ عمر کمانے کی ہے؟ جانے ماں باپ کتنے غریب ہوں گے؟ مغربی ممالک میں بچے کے پیدا ہوتے ہی ریاست ماں باپ کی انکم کے حساب سے بچے کو ماہانہ خرچ مہیا کرتی ہے۔ جتنی انکم تھوڑی، اتنے پیسے زیادہ، انکم زیادہ تو ماہانہ ریاستی پیسے کم، بچوں کا سکول فری، کتابیں، پڑھائی، سٹیشنری فری، میڈیکل فری۔ لیکن گورنمنٹ عوام سے باقاعدہ انکم ٹیکس وصول کرتی ہے۔ جتنی انکم زیادہ ٹیکس زیادہ، انکم کم، ٹیکس کم۔

وہاں کی حکومتیں عوام کو وسائل کے ساتھ جوڑنے کے لئے کام کرتی ہیں۔ ہماری حکومت عوام کو مسائل میں چھوڑ کر اپنے باتھ روم میں سونے کا لوٹا رکھ چھوڑتی ہے۔ جہاں پر جرم اتنا آسان ہو وہاں تو ہر علاقے میں پولیس کے پہرے سخت ہونے چاہئیں مگر پولیس ستو پی کے سوئی رہتی ہے۔ پولیس تو لوگوں کی محافظ ہوتی ہے ہمارے ہاں الٹا بے گناہ پولیس سے ڈرتے ہیں۔

بچہ ماں باپ کی سب سے بڑی پونجی ہوتا ہے۔ جو غریب ماں باپ چھوٹی موٹی دیہاڑی دار نوکریاں کرکے بچوں کے پیٹ پالتے ہیں، بچے ان کے بیچارے سڑکوں پہ رلتے رہ جاتے ہیں۔ اور ایسے بے بس اور معصوم بچوں کے ساتھ انہی سڑکوں، گلیوں میں کیا کیا نہیں ہوجاتا۔

ان سب مسائل کا جو تناسب جارہا ہے پتہ نہیں موجودہ حکومت بھی کوئی بہتری لاسکے گی یا نہیں۔ لیکن اس معاشرے اور ہر فردِ واحد کو بھی ان معصوموں کی حفاظت اور بقا کے لئے اپنی کوششیں ضرور کرنی چاہیئں۔ یہی انسانیت ہے۔ اور تکلیف تو سب کی ویسے بھی سانجھی ہی ہوتی ہے نا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).