اُمّہ کے ساہوکار


فصّیلیں جب اپنی ہی کمزور ہوں تو کب کس نے اور کیسے نقب لگائی یہ خیال دم توڑ جاتا ہے۔ مسلم امّہ کا چورن بیچ بیچ کر امّہ کے وڈیروں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر جب مذہب اور فرقوں کی بنیاد پر مسلم ممالک کو تقسیم کیا تو یہ فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا کے دنیا میں ہونے والی تمام دہشتگردی اور افراتفری کا ذمہ دار کوئی ملک نہیں بلکہ ایک مذہب کے ماننے والے تمام افراد ہیں البتہ اس فیصلے کا اعلان دبے الفاظ میں وقتاً فوقتاً ٹرمپ اور مودی دونوں نے اپنی اپنی الیکشن کمپین میں کرتے رہے اور حال ہی میں اس کا اظہار کھلے الفاظ میں مشترکہ جلسے میں کربھی دیا۔

مگر مسلم امّہ کے تمام بڑے ٹھیکدار ماسوائے چند کے کہ جنہوں نے اس اعلان کی مذمت کی باقی تمام خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے کیونکہ دونوں جانب ان کے مفادات پوشیدہ ہیں۔ اور امتِ مسلمہ کی تقسیم ہی ان کے مفاد میں ہے وگرنہ اُن کی چودھراہٹ کو ایک عظیم خطرہ لاحق ہے اور اپنی چودھراہٹ کو قائم رکھنے کے لیے وہ کبھی امداد کا لالچ دے کر ہم جیسے کمزور ملکوں کو لبھاتے ہیں تو کبھی سفیر بن کر بھولی بھالی عوام کا دل جیت لیتے ہیں مگر جب بات ہو کشمیر کی حمایت کا تو خاموشی کا روزہ رکھ کر صبر کی تلقین کیے دیتے ہیں۔

دوسری جانب ریاستِ مدینہ کے امیر کی خارجہ پالیسی پر بہت بھی بڑا سوالیہ نشان پیدا ہو گیا ہے کہ مودی تو امریکہ کی تقریباً تمام ریاستوں کے گورنروں کی حمایت حاصل کر کے مشترکہ جلسے میں اپنے عزائم کا برملہ اظہار کر رہا ہے مگر پاکستانی قوم اور اس کی افواج کی دہشتگردی کے خلاف دی جانے والی قربانیاں دنیا نظر انداز کر رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام اور ناکام معاشی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ اس بحران کی سنگینی کا اندازہ مودی کی تقریر سے کر سکتے ہیں جس میں موصوف ہمیں اندرونی معاملات کو سدھارنے کی صلاح دے رہے ہیں۔

اگرچہ اُن کے اپنے معاشی معاملات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں مگر امیرِ پاکستان آج بھی اپنے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے اور ان کی تذلیل میں مصروف عمل ہیں اُن کے نزدیک دنیا میں درپیش تمام مسائل کا حل نواز شریف اور زرداری کے کیس میں ہے یا پھر مولانا صاحب کی پگڑی میں کہ جس کو وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اچھال اچھال کر تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

آپ کی شوریَ کے عظیم نمائندگان کی سیاست فقط آپ کی قصیدہ گوئی کے گرد گھو متی ہے یا پھر ان کے نزدیک سیاست صرف حریفوں کی کردار کشی کرنے کا نام ہے۔ حنابِ اعلی آپ کی صلاحیتوں سے انکار نہیں نہ آپ کی ٹیم سلیکشن پر کوئی اعتراض مگر حالات کا تقا ضہ ہے اور خطے کی بدلتی صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوہے اپنے فیصلوں اور سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی وگرنہ حکومت کی جانب سے یہی غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ رہا تو کشمیر ایشو پر ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے کیونکہ جن کو ثالث بننا تھا وہ تو فریق بن بیٹھے جس کی وجہ ان کی مالی اور تجارتی مفادات ہیں لہٰذا ہمیں بھی اپنے تمام تر مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے برابری کی بنیاد پر تمام دنیا سے تعلق استوار کرنا ہوں گے اور وہ جب ہی ممکن ہے کہ جب ہم سیاسی طور غیر یقینی صورتِحال سے باہر نکلیں اور اور معاشی معاملات میں استحکام پیدا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).