عظیم روسی شاعر الیگزینڈر پشکن کی شادی اور موت کی دلچسپ کہانی


الیگزینڈر پشکن نے ماسکو میں نتالیا کو پہلی بار دیکھا۔ نتالیا گنچارووا۔ سولہ سال کی بالی عمر کی چنچل وشوخ وشنگ لڑکی جس کے حسن اور اداؤں کی رُوس کی ایلیٹ کلاس میں دُھوم مچی ہوئی تھی۔ یہ کس قدردلچسپ بات ہے کہ اس کی محبت کا آغاز اگر نتالیا کے نام سے ہوا تو اختتام بھی نتالیا کے نام سے ہو رہا تھا۔

”نتالیا میرے دل میں ہی نہیں دماغ میں بھی گھس گئی ہے۔“ اُس نے اپنی ساس کو لکھا تھا۔

سُسرال کو شادی کی ذرا جلدی نہیں تھی۔ ان کے مطالبات بھی بے شمار تھے اور تحفظات کی بھی لمبی لسٹ تھی۔ گو پُشکن کے باپ نے بولدی نو کی جائیداد اس کے نام کر دی تھی۔ شاہی ملازمت بھی مل گئی تھی کہ شہرت بطور شاعرمسلمّہ ہو چکی تھی۔ کتابوں کی آمدنی بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ پر زندگی میں میانہ روی اور اعتدال نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں۔

شاعرکا دل بُری طرح اس پر آگیا تھا۔ اُس کے لئے وہ کسی دیوی کا روپ دھار گئی تھی۔

اپنی مشہور نظم ”میڈونا“ اور ”اونیگن“ میں اُس کی دلی خواہش کُھل کر سامنے آتی ہے۔ کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ میں اپنا گھر بھی بناؤں گا اور پرانے شاہکاروں سے اسے سجاؤں گا۔ اب میرا مطمع نظر گھر والی ہے۔ میری سب سے بڑی تمنا پُرسکون زندگی اور گو بھی کے سوپ کا پیالہ ہے۔ ”میڈونا“ میں اُس نے نتالیا کے حسن کو حُسن مریم سے تشبیہ دی اور پاکیزگی مسیح ابن مریم جیسی چاہی۔ نظم میں اُسکا یہ اظہار کہ اس کی تخلیق اس خوبصورت رنگ وروپ کے ساتھ خدانے بنائی ہی اُسکے لئے ہے۔ خوبصورتی اور رعنائی کے اس مجسمے کو وہ اپنے گھر میں دیکھنے کا خواہشمند ہے کہ جس کے ریشے ریشے میں اُسکی مشقت گھلی ہوئی ہے۔

دل کھول کر اُس نے دلہن اور سُسرال کی خواہشوں کو پورا کیا۔ شادی 1831 ء میں جس شاہانہ انداز اور کرّوفر سے ہوئی اُس نے اُسے ساٹھ ہزار روبل کے قرضے کے نیچے دبا دیا تھا۔

شادی سے قبل وہ مضطرب ساتھا۔ بے چین سا، عجیب سے جذبات و احساسات کی یلغار کی زد میں آیا ہوا جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

”کیا یہ انتہائے مسُرت ہے۔“ اُس نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔

”ہاں، نہیں شاید۔“

اُس نے باری باری تینوں جواب خود کو دیے۔ پر پھر بھی کہیں اضطراب تھا۔

اور شادی سے اڑتالیس گھنٹے قبل وہ تانیہ کے پاس گیا جس کا خانہ بدوشوں سے تعلق تھا۔

”تانیہ کچھ گاؤ۔ کوئی ایسی چیز جو میرے لئے خوش قسمتی کی تعبیر ہو۔ تم جانتی ہو میں شادی کر رہا ہوں۔“

تانیہ کی خوبصورت غزالی آنکھوں میں گزرے دنوں کے خوبصورت عکس جھلملائے۔ بغیر ایک لفظ بولے وہ اٹھی اُس نے گٹار اٹھایا۔ قالین پر بیٹھی۔ تاروں سے نکل کر جو گیت فضا میں بکھرا، اُس میں حُزن وملال کا وہ رچاؤ تھا جس نے ساری فضا کو پل جھپکتے میں غم ناک کر دیا۔ شاعر نے اپنا سر ہاتھوں میں تھام لیا اور کسی چھوٹے سے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

تانیہ کی آنکھیں بند تھیں۔ لمبی گردن پورے وقار سے کھڑی تھی۔ گیت کا حُزن اور شاعر کی سسکیاں پورے ماحول پر پھیلی ہوئی تھیں۔

”آہ“ بہت دیر بعد اُس نے سراٹھایا اور کہا۔ ”اس گیت نے مجھے ختم کردیا۔ یہ کسی بڑے صدمے کی پشین گوئی ہے خوشی کی نہیں۔ “

اور جب تقریب عرُوسی میں ایک دن باقی تھا۔ اُس نے اپنے دوستوں سے کہا۔ ”تو آؤ کہ میرے ساتھ مل کرمیرے کنوارپنے کی زندگی کو دفن کرو۔“ اور اس کے گہرے درجن بھردوست اکٹھے ہوئے اور چاہا کہ محفل موج و مستی ہو۔ پر حیرت زدہ ہوئے کہ وہ کیسی اذیت میں ہے۔

اپنی جوانی کو، اپنی آزادی کو، الوداع کہنے کے لئے اُس نے اپنی نظم میں سے چند اشعار پڑھے۔ ”میں موت کب چاہتا ہوں۔ مجھے تو زندگی کی آرزو ہے۔ میں غم سے آگاہ ہوں اور فکر وپریشانی سے بھی میراتعلق ہے۔“

ایسے اشعار جیسے وہ جوانی کو رخصت نہیں کر رہاتھا بلکہ زندگی سے رخصت لے رہا تھا۔ جیسے وہ نئی زندگی کو نہیں بلکہ موت کو خوش آمد ید کہہ رہا ہو۔ جیسے آج کے بعد اس کی زندگی میں کل نہیں ہوگا۔ اورمیز کے گرد بیٹھا اُس کے دوستوں کا ٹولہ دہشت زدہ سا اُسے دیکھتا تھا۔ اور پھر اُس نے روندھے گلے اور بھرائی آواز میں انہیں خدا حافظ کہا اور اپنی منگیتر سے ملنے چلا گیا۔

یہ اٹھارہ فروری 1831 ء کا سرد برفیلی کٹیلی ہواؤں کے جھکڑوں میں جھُولتا جھُومتا دن تھا۔ پُشکن کی شادی کا دن۔ مذہبی رسوم کی ادائیگی ماسکو کے چرچ Ascension میں ہو رہی تھی۔ ماسکو کی ایلیٹ کلاس چرچ میں اس اتنی شاندار شادی اور اخراجات کے تخمینوں پر تبصروں اور حاشیہ آرائیوں میں مصروف تھی۔ زرق برق گاؤن پہنے اور منقش ٹوپیاں اوڑھے داڑھیوں والے پادری منتظر تھے۔

دلہن کی آمد، اس کا شاہانہ عروسی لباس، روشنیوں کا سیلاب اور گیتوں کی آوازیں سنہری کارپٹ پر چلتی دلہن کی تمکنت، حسن اور بانکپن اتنابھرپور تھاکہ وہ مسکرایا۔ اپنی گردن کو اکڑایا۔ سینے کو اوپر اٹھایا اور اپنی قامت کو لمبا کیا کہ دلہن اس سے لمبی تھی۔

سٹیوارڈ نے تقریباتی کراؤن اُنکے سروں پر رکھے اور پادری نے انہیں زندگی اکٹھے گزارنے کے دعائیہ جملے کہے۔

اور جب انگوٹھیاں پہنائی جارہی تھیں۔ اچانک ایک آرائشی سنگار پٹی فرش پر گری۔ خود کو اس سے بچانے کے لئے وہ جھُکا۔ رحل سے ٹکرایا۔ صلیبی مجسمہ اور گوسپل ایک بھدی آواز سے گرے اور پشکن کی کینڈل بجھ گئی تھی۔

شاعر کھڑاہوا۔ چہرے پر پیلاہٹوں کی زردی کے ساتھ۔ ڈوبتی شکستہ آواز اس کے ہونٹوں سے نکلی۔ ”۔ All the bad omens“

نتالیا سے شادی پر وہ خوش تھا۔ گو شادی مسائل کے انبارلے کر آئی۔ غیر معمولی شخصیت غیرمعمولی عزم وحوصلہ والا۔ جی داری سے کھڑا رہا۔ جم کر کام کیا۔

نتالیا کو دراصل یہ احساس ہی نہیں تھا کہ جس نے اُسے پسند کیا، اُسے چاہا اور اپنی شریک زندگی بنایا وہ کیا ہے۔ مہنگے ترین ملبوسات، منفرد جیولری، اپنے گرد عاشقوں کا ہجوم اور عیش و عشرت سے لبریز زندگی اُسکا منتہا تھا۔

1831 ء میں شادی ہوئی اور 1835 ء تک وہ چار بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ ماریا، الیگزینڈر، گریگوری اورنتالیا۔ آغاز کاکچھ وقت اُس نے پُشکن کی جاگیر پر گزارا۔ دارالخلافہ پیٹرز برگ میں آنے کے بعد اُس نے باقاعدگی سے کورٹ سوسائٹی میں جانا شروع کردیا۔ مداحوں اور عاشقوں کا ہجوم اس کے گرد اکٹھا ہوگیا تھا جن میں زار نکولس اوّل سرفہرست تھا۔ پشکن کو نفرت تھی زار سے۔ ”Cloud“ میں بادل کے استعار ے میں اُس نے زار کو ہی مخاطب کیا تھا۔

یہ شب وروز چکّی کے اُن دوپاٹوں کی طرح تھے جن میں وہ پس رہا تھا۔ زار نکولس کی طرف سے ملنے والا کورٹ ٹائیٹل بہت توہین آمیز تھا جس نے اُسے غضبناک کیا۔ پر نتالیا کا رویہ اس سے بھی زیادہ توہین آمیز تھا۔

ابھی اس پر ہی اکتفانہ تھا کہ دارالحکومت کی فضاؤں میں نتالیا کے ایک نئے سکینڈل کی افوائیں اڑیں۔ یہ فرنچ نوجوان جارج ڈی انتھیس ( George d ’Anthes)، حسن وجوانی اور وجاہت کا دلاآویز نمونہ، جسے ڈچ سفیر ہیکرن نے اپنے بیٹا بنایا ہوا تھا۔

”The Gypsis دی جپسیز“ اُس کی شہرہ آفاق نظم کے کرداراگر حقیقی تھے تو الیکو کا کرداراُسکا تخلیق کردہ تھا۔ رُوسی شہری مرد۔ خانہ بدوش زیمفیرا کی ماں تاریکی میں جب اُسکے باپ کو چھوڑ کر اپنے کسی آشنا کے ساتھ چلی جاتی ہے تو شاعر کہانی کے ہیرو الیکو کی زبان سے زیمیفرا کے باپ بوڑھے خانہ بدوش سے کہتا ہے کہ تم نے اُس درندے کا پیچھا کیوں نہ کیا۔ دونوں کوگولی کیوں نہ ماری۔ بوڑھے کا جواب اُسکے من کو نہیں لگا تھا جب اُس نے کہا۔
”محبت پر تو کوئی اختیار نہیں اور جوانی آزاد ہوتی ہے۔“

جب زیمفیرا بھی کسی اور کے ساتھ دل لگاتی ہے اور رات کی تاریکی میں اپنے عاشق سے ملنے جاتی ہے تو الیکو دونوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ محبت میں کیسی شراکت داری؟ تو وہ بھی الیکو ہی تھا۔ جوش غضب اور رقابت سے بھرا ہوا۔

”تو پھر آؤ۔ ڈوئل لڑتے ہیں۔“ اُس نے للکارا۔

یہ خوفناک اور شدید قسم کی ڈوئل تھی۔ بڑا اعلیٰ نشانہ باز تھا۔ وہ تو چھوٹی چھوٹی شرطوں کا فیصلہ گولیوں سے کرنے کا عادی تھا اور ہمیشہ جیتا تھا۔

”تو پھر کیا ہوا؟ وہ زندگی سے کیسے ہار گیا؟“

”جو دل سے ہار جائیں۔ زندگی بھی انہیں ہرانے پر تل جاتی ہے۔“

اُسکا تو غیظ وغضب اُسے اٹھا کرلے گیا تھا۔ وگرنہ وہ تو ہارا ہوا تھا۔

شدید زخمی تھا۔ لوگ اٹھا کر اسی گھر میں لائے۔ اور پورا پیٹرز برگ اس گھر پر ٹوٹ پڑا تھا۔ لوگ مشتعل تھے۔ گلیوں اورسڑکوں پر ماتم کی کیفیت میں تھے۔ غضبناک تھے۔ موت کی خبر کو دودن تک چھپایا گیا۔ دودن بعد بھی ہجوم اتنا بپھرا ہوا تھا کہ آدھی رات کوخاموشی سے میت گورسک مناسٹری میخائلوفسکائے کے نزدیک اس کی ماں کے پہلو میں دفن کے لئے لے جائی گئی۔

میں اُس کمرے میں تھی جہاں اُسے زخمی حالت میں لایا گیا تھا۔ وہ بستر جہاں اُسے لٹایا گیا۔ وہ بندوق جس سے وہ زخمی ہوا۔ میز پر پڑی وہ گھڑی جو اُسکی آخری سانس کے ساتھ ساکت کردی گئی تھی۔ چھوٹی سوئی دو ( 2 ) اور تین ( 3 ) کے درمیان اور بڑی نو ( 9 ) پر۔

وہ آگاہ تھا اپنے مقام سے۔ ایسے ہی تو اُس نے نہیں لکھا تھا کہ ایک دن رُوس کی سرزمین پر میرا نام ہو گا دنیا کی زبانوں پر میرا کلام ہوگا۔ اور زارِشاہی کا منارہ میری عظمت کے سامنے سرنگوں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).