آل سینٹس چرچ پشاور کے شہیدو: ھم شرمندہ ہیں….


22 ستمبر 2013ء کی صبح تھی۔ پشارو کےکوہاٹی بازار میں واقع آل سینٹس چرچ میں مسیحی اپنی اتوار کی عبادت کے لئے بڑی تعداد حمد و ثنا میں مصروف تھے۔ چرچ میں پنجابی گیتوں کی آواز گونج رہی تھی۔ تمام بینچ عبادت گزاروں سے بھرے ھوئے تھے۔ سب کی نگاہیں پلپٹ پرموجود پادری پر ٹکی ھوئی تھیں جو محبت،پیار، صبر اور تحمل کا پیغام دے رہے تھے۔

آج کی عبادت بھی معمول کے مطابق اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی تھی کہ.اچانک 11 بج کر 43 منٹ پر ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی جس سے چرچ میں موجود لوگوں میں افراتفری پھیل گئی کچھ باہر کی طرف بھاگے اور کچھ اندر ہی دبک گئے کسی کو نہیں پتہ تھا کہ چرچ سے باہر کیا ہوا ہے پر جو لوگ اندر سے باہر چرچ کمپاونڈ میں انہوں نے جو ہولناک مناظر دیکھے کہ ہر طرف خون اور انسانی جسم کے لوتھڑے چرچ کے صحن بکھرے ھوئے تھے اور ہر کوئی اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہا تھا بچوں بڑوں کی دلخراش چیخ وپکار نے ایک قیامت کا سا سماں برپا کر رکھا تھا۔ کوئی بھی کچھ سمجھنے سے قاصر تھا

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چرچ حملے میں جاں بحق ھونے والوں کی تعداد تقریبا 100 کے قریب تھی اور 100 سے زائد ہی زخمی تھے جبکہ دیگر ذرائع کے مطابق اس سانحہ میں 127 لوگ اپنی قیمتی جانوں سے گئے اور 200 کے قریب شدید زخمی ہوئے۔ سانحہ پشاور چرچ کو گزرے ھوئے چھ برس ھو گئے مگر اس واقعہ کے بہت سے متاثرین آج بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔

میں سارا دن اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھتا رہا۔ شاید حکومت کی طرف سے متاثرین پشاورچرچ کے لئے اظہار ہمدردی کا کوئی پیغام ہو یا پھر کسی حکومتی، یا پھر سرکاری افسران بالا کی طرف سے چرچ کا وزٹ کیا گیا ہو، لیکن دور دور تک کچھ دکھائی نہیں دیا۔ ہاں سوشل میڈیا پر چند انسان دوست بھائیوں کی وال پر سانحہ پشاور کے متعلق پوسٹیں دیکھنے کو ضرور ملی ۔

بلکہ مسیحی کمیونٹی، سیاسی لیڈران، مذہبی پیشوا دیگر ترجیحات میں مصروف ہیں شاید وہ تمام رہنما مسیحی شادی اور طلاق ترمیم مسودے پر سرجوڑ کر سوچ بچار کر رہے ہیں۔ ہاں زندہ قومیں ہمیشہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہیں اور اپنے ماضی کو مٹی میں دفن کر دیتی ہیں۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ مسیحی قوم کے مستقبل کا اہم فیصلہ مسیحی شادی اور طلاق کے قانون سے جڑا ھوا ہے.

تاہم ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ متاثرین سانحہ پشاور جو ایک سانحے سے گزرے ہیں اور ابھی تک ٹراما سے گزر رہے ہیں، ان کی زندگیاں ابھی تک اذیت میں ہیں کیونکہ ہم سب نہ دیکھ سکتے ہیں اور نا محسوس کر سکتے ہیں۔ ہاں وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس میں سے گزر رہا ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).