گھوٹکی میں مندر پر حملے کے عینی شاہد وِکرم لال کی کہانی


گھوٹکی، سندھ، مندر توڑ پھوڑ

شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ہندو اور مسلمان طویل عرصے سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے غم خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور باہم دوستیاں نبھاتے ہیں۔

یہاں تقریباً چار ہزار ہندو خاندان آباد ہیں جن کی معاشی حالت مسلمانوں کے مقابلے میں بہتر ہے۔ مقامی بزنس کا تقریباً 80 فیصد ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے۔

چند روز قبل علاقے میں مشتعل ہجوم کی ایک سکول میں توڑ پھوڑ کرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں اور ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی کہ مذکورہ سکول کے ہندو مالک نے مبینہ طور پر پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز کلمات ادا کیے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق تنازعہ پروفیسر نوتن لال کی گفتگو سے شروع ہوا جب وہ ایک کلاس میں اردو پڑھا رہے تھے۔ کلاس ختم ہونے کے بعد ان کے ایک شاگرد اسلامیات کے ٹیچر کے پاس گئے اور نوتن لال پر پیغمبر کی شان میں نازیبا زبان استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

گھوٹکی، سندھ، مندر توڑ پھوڑ

گھوٹکی پولیس کا موقف

پولیس کا کہنا ہے کہ سکول کے اساتذہ نے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی اور نوتن لال نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نیت کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی نہیں تھی۔

لیکن مذکورہ طالبعلم نے اس واقعے کا ذکر اپنے والد سے کیا اور فیس بک پر بھی پوسٹ کر دیا جس کے بعد لوگوں میں اشتعال پھیل گیا اور 14 ستمبر کو ایک مشتعل ہجوم نے نوتن لال کے خلاف توہینِ مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس سٹیشن کا رخ کیا۔

گھوٹکی کے ایس ایس پی ڈاکٹر فرخ علی کے مطابق پولیس نے ہجوم کو تسلی دینے کی کوشش کی مگر ہجوم اس وقت تک کسی بات کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا جب تک کہ نوتن لال کے خلاف توہینِ مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج نہیں کر لیا گیا۔

اگلے روز صبح تقریباً 11 بجے نعرے بازی کرتے مشتعل ہجوم نے نوتن لال کے سکول میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی اور پھر اس ہجوم کا رخ قریب ہی واقع مندر کی طرف مڑ گیا۔

مندر پر حملے کے عینی شاہد

جب ہجوم مندر پہنچا تو وِکرم لال اس وقت وہاں پوجا کر رہے تھے۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے وکرم لال کہتے ہیں کہ ’ہمیں شور کی آواز آئی جیسے باہر کوئی بہت بڑا ہجوم ہو، وہ لوگ نعرے لگا رہے تھے، پھر اچانک ہی انھوں نے عمارت پر اینٹیں برسانی شروع کر دیں۔‘

جس وقت ہجوم مندر پہنچا تو عمارت کے باہر چھے پولیس اہلکار تعینات تھے اور تعمیراتی کام کی وجہ سے باہر کا گیٹ کھلا ہوا تھا۔ پولیس نے حکام کو اطلاع دی مگر مزید اہلکاروں کے پہنچنے سے پہلے چند مظاہرین عمارت کے اندر داخل ہو چکے تھے۔

وِکرم لال کہتے ہیں کہ اس وقت مندر کے اندر پانچ لوگ تھے جو دروازہ بند کرکے جان بچانے کے لیے بالائی منزل پر چلے گئے۔

’ہم فرش پر لیٹ گئے، شور بلند سے بلند تر ہو رہا تھا، ہمیں پتا تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ عمارت کے اندر داخل ہو چکے ہیں، وہ توڑ پھوڑ کر رہے تھے، ہمیں کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔‘

وِکرم کے مطابق 10 منٹ کے بعد خاموشی چھا گئی اور پولیس اہلکاروں نے ان سے نیچے آنے کو کہا۔

وِکرم نے بتایا کہ ’نیچے آکر انھیں خوف سے زیادہ غصہ آیا۔‘

اس روز مظاہرین نے شہر آنے والی شاہراہ بند کر دی اور کچھ دکانوں کو لوٹ لیا۔ شہر میں صورتحال قابو میں لانے کے لیے پولیس کو رینجرز کی مدد حاصل کرنی پڑی۔

امن ریلی میں سینکڑوں مقامی افراد کی شرکت

انسانی حقوق کے کارکن راجہ مجیب نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی اس صورتحال سے خوفزدہ تھے لیکن انھوں نے خاموش رہنے کے بجائے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے واٹس ایپ گروپ بنایا اور ایک امن ریلی نکالنے کی تیاری شروع کر دی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم خوفزدہ تھے کیونکہ سخت گیر افراد ہمیں بھی نقصان پہنچا سکتے تھے۔ مگر ہم نے ہمت دکھائی اور فیصلہ کیا کہ مٹھی بھر انتہا پسندوں کو معاملات ہاتھ میں نھیں لینے دیں گے۔‘

مجیب کا کہنا تھا کہ امن ریلی نکالنے والوں کی تعداد 50 سے بھی کم تھی مگر جب یہ لوگ ہاتھوں میں سفید پرچم اٹھائے نکلے تو سینکڑوں لوگ اس ریلی کا حصہ بن گئے۔

گھوٹکی کے بہت سے مسلمانوں نے ہندو برادری سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ اگلی رات ان تمام لوگوں نے مندر میں گزاری جہاں مقامی سیاستدان بھی آگئے۔

اہم مذہبی گروہوں نے بھی ہندو برادری کے خلاف ہونے والے تشدد کی مذمت کی۔ انھوں نے نوتن کے خلاف شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر ساتھ ہی اپنے حامیوں کو تشدد سے دور رہنے کی تلقین کی۔ گھوٹکی کی ہندو برادری سے حمایت کے اظہار کے لیے اب بھی وفود آ رہے ہیں۔

گھوٹکی، سندھ، مندر توڑ پھوڑ

جے کمار مقامی ہندو تنظیم ایس ایس ڈی شِوا منڈل کے رہنما ہیں۔ وہ آنے والوں کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مندر کا باورچی خانہ خاصہ مصروف ہے اور آنے والوں کی تواضع چائے اور کھانے سے کی جاتی ہے۔

جے کمار کہتے ہیں کہ 14 ستمبر کے واقعات سے انھیں دکھ پہنچا ہے مگر اس کے بعد جس طرح لوگوں نے ہمدردی کا اظہار کیا وہ بھی متاثر کن ہے۔

جے کمار کا کہنا ہے کہ ’اس افسوس ناک واقعے کے بعد ان کی مصروفیت بڑھ گئی ہے اور سندھ بھر سے لوگ ان سے ملنے آ رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہر مذہب کے ماننے والوں میں اچھے برے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایک فرد جرم کرتا ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے ملک میں قوانین ہیں جن کی روشنی میں عدالتیں فیصلہ کر سکتی ہیں۔ کسی ایک فرد کے جرم کے لیے پوری برادری کو ہراساں نہیں کرنا چاہیے۔‘

دوسری جانب مندر کے اندر توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ کچھ ملزموں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور سکول پر حملہ کرنے اور دکانیں لوٹنے والوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

ایس ایس پی گھوٹکی ڈاکٹر فرخ علی کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج سے ریاست نے ایک پیغام دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’شرپسندوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بلاتفریقِ مذہب ریاست کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں۔‘ ان کے بقول صورتحال بہت حساس تھی مگر پولیس نے مقامی رہنماؤں کی مدد سے اس پر قابو پا لیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ یہاں کی صورتحال کا موازنہ پاکستان کے دوسرے حصوں یا انڈیا سے کریں جہاں مذہبی یا نسلی فسادات شروع ہو جائیں تو کہیں زیادہ نقصان ہوتا ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ ہم نے فوری کارروائی کی اور پتھراؤ اور توڑ پھوڑ کے کچھ ناخوشگوار واقعات کے باجود لوگوں کی جانیں اور املاک بچانے میں کامیاب رہے۔‘

گھوٹکی، سندھ، مندر توڑ پھوڑ

اس واقعے کے مرکزی کردار نوتن لال کو حفاظتی تحویل میں کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ ان کا کنبہ خوف سے شہر چھوڑ کر چلا گیا ہے کیونکہ ماضی میں ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جب قانونی کارروائی سے پہلے ہی توہین مذہب کے ملزم مار دیے گئے تھے۔

شہر میں صورتحال بظاہر پر امن ہے، مگر سکیورٹی فورسز چوکنا ہیں اور سڑکوں پر رینجزز ابھی بھی گشت کرتی نظر آتی ہے۔

ایس ایس پی فرخ علی کا کہنا ہے کہ پولیس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیس نے نوتن کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے اور موقع پر موجود دوسرے طلبا کے بیانات بھی قلمبند کیے جارہے ہیں، مگر انھوں نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے تفتیش مکمل ہونے سے پہلے مزید کوئی تفصیل بتانے سے انکار کردیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp