72 سال پرانی بیماری کا علاج


ہمارے ایک دوست ہیں، عمر تو اُن کی زیادہ نہیں مگر انہیں بیمار رہنے کا بہت شوق ہے، روزانہ خود کو ایک نئی بیماری کا شکار بتاتے ہیں اور پھر خود تشخیصی نظام کے تحت اپنے لیے دوا تجویز کرکے اُس کا بے دھڑک استعمال شروع کردیتے ہیں، دو دن میں جب دوا کا شوق اتر جاتا ہے تو نہایت بیزاری سے دوا کی شیشی اپنے تھیلے میں پھینک کرکے کہتے ہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُن کاتھیلا اب ایک چلتا پھرتا میڈیکل سٹور بن چکا ہے۔ کبھی کبھار وہ حقیقت میں بیمار ہو جاتے ہیں، اُس صورت میں بھی وہ دوا کا استعمال سنجیدگی سے نہیں کرتے ہیں، جب افاقہ نہیں ہوتا تو با امر مجبوری ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اورپھر بمشکل پانچ سات دن تک اینٹی بائیوٹک کھانے کے بعد انہیں آرام آتا ہے۔

ہماری قوم کا حال بھی ایسا ہی ہے، بے شمار بیماریاں ہمیں لاحق ہیں اور آئے دن ہم اِن کا علاج دریافت کرنے کے چکر میں مختلف قسم کی دوائیاں تجویز کرتے رہتے ہیں۔ فرسودہ طرز حکمرانی ٹھیک کرنے کے لیے ہم نے مارشل لا کی اینٹی بائیوٹک چار مرتبہ کھائی، شروع شروع میں لگا جیسے یہ دوا ہمیں راس آ گئی ہے مگر کچھ ہی عرصے بعد ایسا ری ایکشن ہوا کہ بازو کاٹنا پڑ گیا، اس کے باجود ہمیں عقل نہیں آئی اور ہم نے دوا کا استعمال جاری رکھا، نتیجے میں ملک اس قدر لاغر ہو گیا کہ نام نہاد اینٹی بائیوٹک چھوڑنی پڑی۔

اسی طرح دیگر سماجی اور اخلاقی بیماریوں سے نجات کے لیے بھی ہم مختلف حکیمی نسخے استعمال کرتے رہتے ہیں، مثلاً کبھی ہم ایماندار لیڈر کی ”پھکی“ کھانے کے بعد سمجھتے ہیں کہ اب کرپشن سے معدہ خراب نہیں ہوگا، کبھی کوئی ہو میو پیتھک ڈاکٹر ہمیں بتاتا ہے کہ سیاست نہیں ریاست اہم ہوتی ہے اس لیے ملک بچانے کے لیے آئین کو انستھیزیا دے دینا چاہیے، کبھی ایک سرجن باہر سے آ جاتا ہے اورہمیں بتاتا ہے کہ ملک کو عمل جراحی کی ضرورت ہے، ہم اُس سے اپنا آپریشن کر والیتے ہیں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ درد کمر میں تھی اور وہ گردہ نکال کر لے گیا۔

غرض اِن بہتر برسوں میں ہم نے ہر قسم کے حکیم، ڈاکٹر، طبیب اور جراح آزما لیے مگر ہمیں آرام نہیں آیا، لا قانونیت سے پورے جسم میں ٹیسیں اٹھ رہی ہیں، اخلاقی سلپ ڈسک نے ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ہلا دیے ہیں، سماجی بد پرہیزی نے معدہ کمزور کر دیا ہے، عظمت رفتہ کی سگریٹ نوشی سے دل کی شریانیں بند ہو چکی ہیں، انتہا پسندی کی شراب نے گردے فیل کر دیے ہیں، بد عنوانی کی قبض نے برا حال کر رکھا ہے اور آئین کی خلاف ورزیوں نے تو گویا دماغ پر مستقل اثر ڈال دیا ہے۔

ہم روزانہ ایک نظر اپنے بیمار جسم پر ڈالتے ہیں اور پھر حسرت سے دوسروں کو دیکھتے ہیں، کوئی یورپ کے باغ میں دوڑ لگا رہا ہے تو کوئی ایشیا میں ورزش کی تیاری کر رہا ہے، ہم سوچتے ہیں کہ آخر ہم ان جیسا کیوں نہیں بن سکتے! اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسانی نفسیات کے ایک تصور سے آشنا ہوں، اس تصور کو انگریزی میں Bounded Rationalityکہتے ہیں، اردو میں اِس کا ترجمہ ”محدود عقلیت“ کیا جا سکتا ہے۔

ایک خود کُش بمبار جب اپنے ہدف کی طرف جاتا ہے تو راستے میں وہ بالکل نارمل انسان کی طرح برتاؤ ¿ کرتا ہے، وہ کسی سے لڑتا جھگڑتا نہیں، دائیں بائیں دیکھ کر سڑک پار کرتا ہے، اسے علم ہوتا ہے کہ کس بس میں بیٹھ کر کون سی جگہ اترنا ہے، گویاوہ تمام کام اپنی عقل کے مطابق درست طریقے سے سر انجام دیتا ہے مگر جونہی وہ اپنے ہدف پر پہنچتا ہے تو خود کو دھماکے سے اڑا لیتا ہے جس کے نتیجے میں اُس کی اپنی جان تو جاتی ہے ساتھ میں کئی بے گناہ لوگوں بشمول عورتوں اور بچوں کی جان بھی چلی جاتی ہے۔

ظاہر ہے کہ اِس فعل کی کوئی عقلی توجہیہ نہیں دی جا سکتی ہے کیونکہ اُس شخص نے ایک دائرے میں خود کو پابند کرکے محدود ذہن کے ساتھ فیصلہ کیا کہ وہ خود کُش دھماکہ کرے گا، اس عمل کو محدود عقلیت کہتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص کسی طرح یہ رائے قائم کر لی کہ پارٹی الف ہی ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتی ہے لہذا اُس نے پارٹی الف کی حمایت کرنی ہے، ایسا شخص لا شعوری طور پر خود کوپارٹی الف کی حمایت کے دائرے میں محدود کر لے گا، اُس کی عقلیت پسندی اب اِس دائرے میں سمٹ آئے گی، آپ جتنی بھی موثر دلیلیں دیں وہ اِس دائرے سے باہر نہیں جائے گا، البتہ دیگر معاملات زندگی میں وہ بالکل ایک دانشمند شخص کی طرح برتاؤ ¿ کرے گا، اپنا اچھا برا دیکھ کر فیصلہ کرے گا، نوکری پیشہ ہو گا تو نوکری ٹھیک کرے گا، کاروباری ہو گا تو کاروبار بھی دانا شخص کی طرح کرے گا مگر جونہی آپ اسے دائرے سے باہر لے جانے کی کوشش کریں گے اُس کی عقلیت پسندی محدود ہو جائے گی۔

ہماری قوم کا بھی یہی مسئلہ ہے، ہم نے خود کو مختلف دائروں میں پابند کر رکھا ہے اور اُن سے نکلنے کے لیے تیا ر ہی نہیں، بطور قوم جو بیماریاں ہمیں لاحق ہیں وہی بیماریاں یورپی اقوام کو بھی لاحق تھیں، یورپ نے تاریک ادوار سے نکلنے کے لیے ایک طویل جنگ کی جس میں کئی تاریخی موڑ آئے، مثلاً پہلے انہوں نے رومن کیتھولک چرچ کے اختیارات محدود کیے، پھر تہذیبی اصلاحات کیں، پھر دو اڑھائی سو سال تک سائنس اور فلسفے پر کام کیا، ان کے فلسفیوں نے انقلابات کی بنیاد رکھی، صنعتی انقلاب برپا کیا، دنیا پر غلبہ حاصل کیا، اس سے فراغت ہوئی تو شخصی آزادیوں کی تحریک شروع کی، عورتوں کے حقوق یقینی بنائے، اقلیتوں کو تحفظ اور برابر کا احترام دیا اور سب سے بڑھ کر فرد اور ریاست کے مابین سوشل کنٹرکٹ کو وہ تقدس دیا جسے پامال کرنے کا آج کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ سب ”دوائیاں“ انہوں نے استعمال کیں تو آج وہ تندرست اور توانا ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ حکیم کی ایک پھکی سے آرام آ جائے، یہ ممکن نہیں۔

پابند عقلیت کی وجہ سے ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ یورپ کی نشاة ثانیہ کسی بھی قسم کا رول ماڈل ہو سکتی ہے، ہمیں اِس میں سبکی محسوس ہوتی ہے، جو لوگ یورپ کی مثالیں دیتے ہیں انہیں ہم یورپ سے مرعوبیت کا طعنہ دیتے ہیں۔ ہم نے خود کو دائرے میں پابند کرکے کچھ باتوں کو خواہ مخواہ آفاقی سچائیاں تسلیم کر لیا ہے اور اس دائرے سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں، مثلاً کئی دہائیوں سے اِس ملک میں راگ الاپا جا رہا ہے کہ سیاست دانوں کی بد عنوانی کی وجہ سے ملک تنزلی کا شکار ہوا اور اسی لیے کئی دہائیو ں سے احتساب بھی ہو رہا ہے، سو اصولاً تو اب تک ملک کو ترقی کی شاہراہ پر چھلانگیں لگاتے ہوئے آگے نکل جانا چاہیے تھا مگر حقیقت میں ہمیں ریورس گئیر لگا ہوا ہے۔

پابند عقلیت کے زیر اثر ہم سوچتے ہیں کہ چونکہ احتساب ٹھیک نہیں ہوا اس لیے ملک نے ترقی نہیں کی مگر یہ نہیں سوچتے کہ ممکن ہے ملک کا بنیادی مسئلہ ہی کچھ اور ہو! محدود عقلیت کی وجہ سے گزشتہ سات دہائیوں سے ہم مرض کی تشخیص نہیں کر پا رہے اور الٹی سیدھی دوائیں کھا کے ادھ موئے ہو ئے پڑے ہیں، جبکہ ہم اسی مرض میں مبتلا ہیں جس مرض میں یورپ تاریک ادوار میں تھا اور اس مرض سے نکلنے کے لیے وہی ادویات استعمال کرنی پڑیں گے جو یورپ اور دیگر ممالک نے استعمال کیں، سر درد کا علاج پینا ڈول سے ہوگا، سر پر دم کروانے سے نہیں!

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada