مرتضیٰ بھٹو: وہ بھٹو جو اپنی بہن بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں مارے گئے


بھٹو کی کتاب

Fatima Bhutto
فاطمہ بھٹو کی کتاب کا سر ورق

ہسپتال میں دم توڑ دیا

ڈاکٹر انھیں بچا نہ سکے۔

فاطمہ نے اپنی کتاب میں ان کے آخری وقت کی کیفیت یوں بیان کی ہے ‘پاپا کے بال ہمیشہ قرینے سے سجے ہوتے تھے۔ وہ صرف اس وقت ذرا خراب ہوتے جب وہ سو کر اٹھتے تھے۔ میں اپنے والد کی لاش کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور میں نے ان کے چہرے، گالوں اور ہونٹوں کو چوما۔

‘میں نے داہنستہ طور پر ان کی آنکھوں کو نہیں چوما کیونکہ لبنان میں یہ توہم پرستی ہے کہ اگر آپ کے ہونٹوں سے کسی کی پلکیں چھو جائیں تو وہ ہمیشہ کے لیے آپ سے دور ہو جاتا ہے۔ میں اپنے پاپا سے دور نہیں ہونا چاہتی تھی۔’

بھٹو خاندان

Fatima Bhutto
تصویر میں بائیں سے دائیں: شاہنواز بھٹو، بینظیر بھٹو، مرتضی بھٹو، صنم بھٹو اور نصرت بھٹو

بینظیر ننگے پاؤں ہسپتال پہنچیں

اپنے بھائی کی موت کی خبر سنتے ہی وزیر اعظم بینظیر بھٹو فوری طور پر کراچی پہنچ گئیں اور اپنے مردہ بھائی کو دیکھنے کے لیے ننگے پاؤں مڈ ایسٹ ہسپتال گئیں۔

بعد میں لاڑکانہ میں انھوں نے ایک تقریر کرتے ہوئے کہا ‘1977 میں جب مارشل لا نافذ ہوا اور فوج برسر اقتدار آئی تو میر مرتضیٰ بھٹو جوان تھے۔ انھیں ملک چھوڑنا پڑا۔ فوج کی وجہ سے وہ وطن واپس نہیں آ سکے۔ وہ اپنے والد کے آخری دیدار سے محروم رہے۔‘

‘وہ اپنے چھوٹے بھائی شاہنواز کو دفنانے کے لیے بھی نہیں آ سکے اور وہ خود آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ میر مرتضیٰ بھٹو اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ شہید کبھی مرتے نہیں۔’

مرتضی بھٹو

Fatima Bhutto
بیٹی فاطمہ بھٹو کے ساتھ ان کے والد مرتضی بھٹو

پولیس پر قتل کا الزام

مرتضیٰ بھٹو کے حامیوں نے الزام لگایا کہ مرتضیٰ کو کراچی پولیس نے منصوبہ بنا کر قتل کیا ہے۔

پولیس نے پہلے سٹریٹ لائٹس کو بند کیا اور پھر مرتضیٰ کے قافلے پر فائرنگ کر دی۔ پولیس نے اس کی تردید کی۔

پولیس کے ایک سینیئر افسر شعیب سڈل نے کہا کہ ‘پولیس بھٹو کے ساتھ آنے والے بندوق برداروں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جیسے ہی انھیں رکنے کا اشارہ کیا گیا، انھوں نے پولیس پر فائرنگ کر دی اور پولیس کو اپنے دفاع میں گولی کا جواب دینا پڑا۔’

بھٹو خاندان

François LOCHON/Gamma-Rapho via Getty Images
تصویر میں ایک جانب بینظیر بھٹو تو دوسری جانب مرتضی بھٹو

کئی جواب طلب سوالات

مرتضیٰ کی موت نے بہت سے سوالات کو جنم دیا جن کے آج تک جواب نہیں مل سکے۔

پانچ دسمبر 2013 کو قتل سے وابستہ بہت سے افراد کو بری کر دیا گیا لیکن مرتضیٰ کی بیٹی فاطمہ اقتدار سے منسلک چند لوگوں کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ذوالفقار علی بھٹو کو سنہ 1979 میں پھانسی دی گئی لیکن انھیں کبھی انصاف نہیں ملا۔ شاہنواز 1985 میں مارے گئے لیکن کسی کو بھی ان کی موت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔’

‘میرے والد مرتضیٰ کو 1996 میں قتل کیا گیا اور ایک پاکستانی عدالت نے سنہ 2009 میں کہا انھیں کسی نے بھی نہیں مارا۔ سنہ 2007 میں بینظیر راولپنڈی میں ایک ریلی میں ماری گئیں اور اس پر کوئی پولیس رپورٹ بھی نہیں کی گئی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp