ڈاکہ زنی، لا قانونیت اور امن عامہ


حکمرانوں کا دعویٰ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا ہے۔ مقصدکے حصول کے لئے چور ڈاکو پکڑنے اور ان کو سزائیں دینے کے لئے وہ اور ان کے آقا واٹس ایپ سمیت تمام طریقے کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن چور، ڈاکو آگے بڑھتے ہوے اب روزانہ کی بنیاد پرکارروائیاں کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے شہروں، گاؤں اور سڑکوں پر ناکے لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ ڈاکو شہروں میں ڈکیتی کے دوران قتل کرنے سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ یہ حالات کہیں دور دراز کے علاقوں کے نہیں وسطی پنجاب کے شہروں میں مصروف شاہراہوں اور بازاروں کے ہیں۔

بچوں کا اغوا، زیادتی اور قتل تو قومی میڈیا میں جگہ حاصل کر لیتا ہے، لیکن ایسے جرائم میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ یہ کم خطرناک ہیں۔ چوری، ڈاکہ زنی اور قتل جیسے جرائم اگر معاشرہ میں عام ہو جائیں تو وہ ایک ناسور بن جاتے ہیں اور کسی انسان کی جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں رہتی۔ ان جرائم سے بدامنی کے ساتھ معاشی بدحالی اورسیاسی انتشار بھی جنم لیتا ہے۔ اب چوری، ڈاکہ زنی اور قتل نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ آج کل شیخوپورہ میں وارث شاہ کا میلا لگا ہوا ہے۔ جنڈیالہ شیر خاں کو جانے والی کوئی بھی سڑک، راستہ یا پگڈنڈی ایسی نہیں جس پر ان دونوں میں مسلسل وارداتیں نہ ہو رہی ہوں۔

چھوٹی بستیاں ہوں یا بڑے شہر، اگر دن سکون سے گزر جاے تو لوگ رات کو لوٹ لئے جاتے ہیں۔ جاوید اختر نے لکھا تھا

آج سویرے سے

بستی میں

قتل و خوں کا

چاقو زنی کا

کوئی قصہ نہیں ہوا ہے

خیر۔

ابھی تو شام ہے

پوری رات پڑی ہے

اب یہ وارداتیں تسلسل سے جاری ہیں۔ شہریوں کو ڈاکووں کے جبرو ستم سہنے کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ پولیس کے پاس جائیں تو ان کے رحم و کرم پر انحصارمزید مہنگا پڑتا ہے۔ حکم ہو تا ہے کہ شہری اپنی حفاظت خود کریں، کیا بوالعجبی ہے؟ کیا اوٹ پٹانگ حرکات ہیں؟ احکامات جاری کیے جا رہے ہیں کہ اپنے چوکیدار رکھیں، کیمرے لگائیں۔ عوام مجبوری میں سب کچھ کر رہے ہیں، لیکن کیا فائدہ۔ ڈاکو ننگے منہ قتل کر رہے ہیں، وارداتوں کی ویڈیوز بن رہی ہیں، پکڑا کوئی بھی نہیں جا رہا۔

سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کا نعرہ اگر کسی مذہبی سیاسی پارٹی کا سربراہ لگاے تو حکمران اور اپوزیشن سب کہتے ہیں کہ برا ہورہا ہے۔ لیکن جب قرانی آیات پڑھ کر ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو کہتے ہیں یہ تو ہمارا مقصد ہے۔ کیا ان کو پتا نہیں کہ ریاست مدینہ اسلام کی امن و سلامتی کی بنیادوں پر کھڑی تھی۔ اسلام، انتشار اور بد امنی کو نا پسندیدہ قرار دیتا ہے اور قیام امن کے لئے بہت سے اقدام اٹھاتا ہے۔

یہ انتشار اور بدامنی کی طرف جانے والے ہراس راستہ کو روکتا ہے جس سے نہ صرف اداروں بلکہ معاشرہ اور ریاست تک میں عدم استحکام اورفتنہ و فساد کا خطرہ ہو۔ کیا حکمران د یکھ نہیں رہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی جیسے افعال خبیثہ، ڈکیتی جیسے جرائم قبیحہ، اور قتل جیسے ناپسندیدہ و بیہودہ جرائم اب عام ہو رہے ہیں۔ بچوں کے بے زباں جسموں پہ روز حملے ہوتے ہیں، یہاں کے معمول میں اب موت بھی شامل ہو چکی ہے۔

بنوں میں ہے آشوب، کوہوں میں ڈر

بیاباں وطن سارے گرم سفر

کیا حکمران ان ساری وارداتوں کو دیکھ نہیں رہے۔ ، وہ اپنی کھچاروں میں کہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ عوام کا حال پوچھنے کو ئی آتا ہی نہیں۔ ملکی معیشت کی بات چھوڑیں یہ تو ملکی امن عامہ بھی سنبھالنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ سیاسی مسائل تو اکتوبر نومبر میں سامنے آئیں گے، یہ ان سے کیسے نمنٹیں گے، ان کی پولیس تو مجرم پکڑنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ ان کے وزیر اعلی، وزیر اور افسر عوام کو تحفظ مہیا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اس وقت پورے ملک پر ایک انتظامی اعتبار سے تعطل کی کیفیت طاری ہے۔ ان کا وسیم اکرم پلس، بزدار پورے پنجاب کو دھکیل کرجنگل کی طرف لے جا رہا ہے۔ ظلم و ستم کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ نوع انسانی کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ عوام لٹ رہے ہیں، قتل ہورہے ہیں،

وہ جاے امن ڈھونڈھتے ہیں کار زار میں

مارٹن لوتھر کنگ جو نئیر کا قول ہے، ”قانون اور انتظامیہ کا کام تحفظ اورانصاف مہیا کرنا ہے اور جب وہ یہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو وہ ایسا خطرناک بند بن جاتے ہیں جو سماجی ترقی کی رفتار کو منجمد کردیتا ہے۔ “

ریاست مدینہ بنانے کے دعوی دارو، ریاست کی فکر کرو، امن کے بارے میں سوچو، عوام کی حفاظت کا انتظام کرو۔ چوروں، ڈاکووں اور قاتلوں سے ان کو بچاؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).