بلوچستان کی متعصب حکومت؟


تعصب دراصل ایک رویے کا نام ہے۔ جسے جانبدارانہ رویہ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر مہذب معاشرے میں آپ کسی کو متعصب کہہ دیں تو گویا آپ نے اسے گالی دے دی۔ متعصبانہ رویے سے ہی معاشروں میں شدت پسندی جنم لیتی ہے۔ جس کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اور بعض موقعوں پر لوگ جانبدارانہ رویے کی وجہ سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی جدوجہد کو جائز سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں نے پچھلے کالم میں حکومتی کارکردگی کو پرکھنے کے کچھ معیار بیان کیے تھے۔

جن میں سے ایک بڑا اور اہم معیار برابری کا تھا۔ جس حکومت میں عوام کا بڑا طبقہ امتیازی رویے اور دوہرے معیار کی شکایت کرنے لگے یا اسے یہ محسوس ہو کہ اس سے برابری کا سلوک نہیں ہورہا۔ تو یہ بہت خطرناک بات ہے۔ لیکن دوسری جانب اگر آپ کسی میں یہ جانبدارانہ رویہ محسوس کریں اور خاموش رہیں تو اس سے بڑی منافقت ہو نہیں سکتی۔ تو گویا آپ بھی اس رویے کے حامی سمجھے جائیں گے۔ 23 ستمبر کو پشتون کلچر ڈے تھا شہر میں بڑی رونق تھی۔

لوگ روایتی پشتون لباس میں اپنے کلچر سے محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ بچوں نے جو لباس زیب تن کیے تھے ان کی تو بات ہی اور تھی اس جذبے اور احساس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس سلسلے منعقدہ تقریب کے تمام تر اخراجات پشتون نوجوانوں اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے کچھ کارکنوں نے برداشت کیے تھے۔ شاید پشتونخواہ کی تقریب کا سن کر خواب خرگوش میں سونے والی حکمران اتحادی پشتون قوم پرست جماعت اے این پی کو بھی دیر سے 23 ستمبر کا خیال آیا کہ آج تو پشتون کلچرل ڈے منایا جارہا ہے اور یوں وہ بھی بحالت مجبوری آدھے گھنٹے میں پریس کلب کے سامنے آ پہنچی۔

اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے بھی اس مجمعے سے روڈ پر خطاب کیا۔ ان کی تقریر سنی تو نیم سیاسی و نیم سرکاری دوست نے ہاتھ پکڑتے ہوئے ساتھ واقع ہوٹل کے تھڑے پر چائے کی دعوت دی۔ جہاں چند لوگ ہمارے ساتھ بیٹھے موجودہ حکومتی روپے پر بحث کر رہے تھے۔ وہ غالبا اے این پی کے کارکن تھے کیونکہ سر پر سرخ ٹوپیاں لئے ہوئے تھے وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اپنے وزیروں کی وجہ سے ہم اپنے سیاسی مخالفین کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔

ہم حکومت میں ہیں جبکہ پشتون کلچر ڈے پر حکومتی سطح پر کوئی تقریب منعقد کرانے میں ہم ناکام رہے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا کہ ہم سے ہزارے اچھے جن کا صرف ایک وزیر ہے اور ان کا ہزارہ کلچرل ڈے حکومتی سطح پر منایا گیا۔ اخراجات حکومت بلوچستان نے برداشت کیے اور وزیراعلی بلوچستان نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ اچھی بات ہے ہزارہ ہمارے بھائی ہیں لیکن پشتونوں کے ساتھ اس حکومت کا تعصب بھرا رویہ کب ختم ہوگا؟ کسی نے کہا میں چند پشتون وزراء سے ملا وہ مجھے حکومتی رویے سے زیادہ خوش نہیں لگ رہے تھے۔

دوسرا کہنے لگا کہ اس کا ایک باخبر دوست بتایا رہا تھا کہ وزیراعلی صاحب سے چند دن قبل بعض پشتون وزراء کی ٹھیک ٹھاک تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور بات یہاں تک پہنچی کہ وزیراعلی صاحب کو میٹنگ سے اٹھنا پڑا۔ ویسے بھی وزن ایک جانب بہت جھکا ہوا لگتا ہے۔ میرے زیرک دوست نے ان کی باتیں سنیں تو گویا اس کو موقع مل گیا مجھے شرمندہ کرنے کے لئے تاریخ کے اوراق پلٹاتے ہوئے کہا کہ نالائق انسان تمھیں معلوم ہے کہ موجودہ جام صاحب کے والد صاحب بڑے جاموٹ پرست تھے اور اس پر وہ فخر بھی محسوس کرتے تھے۔

مرحوم مراد ابڑو نے جب جاموٹ قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی تو انہوں نے اسے کافی سپورٹ بھی کیا تھا۔ اور آخر وقت تک ان کے آپس میں بڑے اچھے مراسم بھی رہے لیکن موجودہ جام صاحب اپنے آپ کو بلوچوں سے زیادہ نسبت قرار دیتے ہیں۔ میرے زیرک دوست نے ایک دم گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور پشتون کلچر سے بات پشتون افسر ز کی طرف لے گیا۔ کہنے لگا تم خود لکھ چکے ہو کہ ڈی جی ریسرچ محکمہ زراعت جو 20 گریڈ میں تھا اسے معطل کرنے سے پہلے شو کاز نوٹس تک نہیں دیا گیا اور سبز قلم سے یک دم معطلی کا پروانہ جاری ہوگیا۔

دوسری طرف وزیر خان کے جائز کام پر گزشتہ 6 ماہ سے قلم کی سیاہی خشک ہے۔ حالیہ سیکرٹری فوڈ کی معطلی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج تک پورے سیکرٹیریٹ کی تاریخ میں کوئی سیکرٹری اس طرح قربانی کا بکرا نہیں بنا ہوگا۔ ڈی جی ریسرچ کی معطلی کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگا تمھیں خود پتہ ہے سیکرٹری فوڈ سے سنگین چارجز تو سابق سیکرٹری زراعت پر ہیں لیکن وہ اس وقت بلوچستان کے ایک اہم عہدے پر فائز ہے۔ اللہ کرے وہ بے قصور ہو لیکن معیار تو ایک ہونا چاہیے۔

اب بد قسمتی سے جن کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ یا جائز کام رکا ہوا ہے ان سب کا تعلق ایک ہی طبقے سے ہے۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہنے لگا کہ اب سیکرٹیریٹ جاؤ تو خال خال ہی پشتون سیکریٹری نظر آئے گا۔ غالبا 35 سیکریٹریوں میں اب 5 رہ گئے ہوں گے۔ ان سے سیکریڑیز کو بھی ایسے محکموں میں کھپایا گیا ہے جو کہ بس نام کا وجود رکھتے ہیں جبکہ 10 سینئرترین پشتون سیکرٹریز کو او ایس ڈی رکھا گیا ہے جبکہ 37 اضلاع ڈپٹی کمشنرز میں سے صرف تین پشتون ہیں جن میں سے دو کو اپنی سابقہ سروس کی وجہ سے تعیناتی ملی ہے۔

جبکہ ایک کو بھی سابقہ حکومت نے تعینات کیا تھا موجود ہیں۔ صوبے میں اہم محکموں کے عہدوں پر پشتون نظر نہیں آتے اور بلوچستان کے پشتون افسر ان سے تو صوبے کے ڈومسیائل افیسران کو اہم عہدے ملے ہیں۔ تم جیسے نام نہاد پشتون بھی ہماری باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں کیا تم بھی ہمارے عدم تشدد کے رویوں پر ہنستے ہو؟ یہ سب سن کر میں بہت پریشان ہوا اور وہاں سے چل دیا۔ اس ڈر کے ساتھ کہ قوم پرست نہ کہلاؤں کسی حکومت کے بارے میں ایسا تاثر انتہائی تکلیف دہ وہ پریشان کن ہے۔ اللہ تعالی ہماری آپ کی اور اس پیاری حکومت کی حفاظت رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).