کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے


راقم السطور اعنی ہیچمداں کو جن اساتذہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے، ان میں سے ایک گرامیِ ذی قدر جناب انوار احمد صاحب کی ہستی بھی ہے۔ آنجناب سے شرف ِ تلمیذ کا باقاعدہ سلسلہ اُس وقت شروع ہوا، جب احقر، اعلیٰ ثانوی تعلیم کے حصول کے واسطے عازم ِ اسلام آباد ہوا اور وہاں کی ایک معروف درسگاہ علمی میں جنابِ ممدوح کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ حضرتِ ذی قدر ہمیں اردو کے مضمون کی تعلیم دینے پہ مامور تھے مگر دورانِ تدریس اسباقِ درسی کے علاوہ کچھ دوسرے مسائل کو بھی زیرِ بحث لا کر ہمارے آئینہ عقل کو صیقل کرنے کی سعی فرماتے ( اور اس کا صلہ پس زنداں میں رہ کر وصول کر رہے ہیں)۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب آنجناب نے ہمیں خواجہ میر درد کی غزل کہ جس کا مطلع تھا،

مدرسہ یا دیر تھا، یا کعبہ یا بت خانہ تھا/ ہم سبھی مہماں تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا

اس غزل کے مطلع کو لے کر گرامیِ ذی قدر نے جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے دو نظریات کو بیاں کیا، وہ مجھ سمیت میرے تمام ہم سبق دوستوں کے واسطے بالکل ایک نئی چیز تھی۔ اور یوں اُس وقت جنابِ والا کی علمی شان اور مرتبہ ہمارے سامنے نکھر کر سامنے آیا۔ پھر چونکہ جناب کی ذات کو غالب سے حد درجہ عشق تھا، اسی کے کارن جب غالب کی غزلیات کا سلسلہ شروع ہوا، تو آپ کی جو ان اشعار پہ تقاریر شروع ہوتیں، وہ مباحث کئی ایام تک چلتے رہتے۔

تاہم ان امور سے دیگر ایک اور وصف جو آپ کی شان میں نمایاں تھا، وہ اسلام کی عملی اقدار کا احیاء اور ان کی روح کو اجاگر کرنا تھا ( جن سے ہم جیسے نام نہاد اسلام پرست کوسوں دور ہیں، اور نہ ہی ان کو سمجھنے کے واسطے تیار)۔ آپ کئی بار اثنائے درس جب فخر کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی بات یا آپ کے کسی قول و فعل کا تذکرہ فرماتے، تو آپ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے تلامذہ سے اس بات کی توقع کرتے کہ وہ مذکورہ ارشاد کا عملی نمونہ بن جائیں۔

اور یوں وہ ہم جیسے کوتاہ عقل سامعین کو جہاں ایک طرف سوچنے کی دعوت دیتے وہیں دوسری جانب روایتی تقلید سے بیزاری کی بھی تلقین فرماتے، با الفاظ ِ دگر ہم جیسے ”سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود“ لوگوں کو آزاد فضاء میں سانس لینے، سوچنے اور اپنی راہ متعین کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنے اور اس پہ کاربند رہنے کا درس دیتے۔

تاہم اب جوں جوں زمانہ مائل بہ مادی ترقی ہے، شومئی قسمت ہماری عقل و شعور رو بہ ترقی کی بجائے مابہ تنزل کا شکار ہے، اور اس کے اندر کوئی مخصوص شعبہ نہیں بلکہ الا ماشآءاللہ تمام شعبہ جات شامل ہیں۔ اور یہ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ دورجدید کی نسل اعلیٰ اقدار، عمدہ ادب کے مطالعے، اور کلاسیکل فکر سے نا آشنا ہوتی چلی جا رہی ہے۔ لیکن اس بات کے اندر بھی کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں کہ ہر زمانے کے اندر ان عقلاء اور باشعور افراد کو زمانے کے مصائب کا نشانہ بننا پڑا، جس کی بدیہی وجہ ان کے نظریات کا ناموافقِ زمانہ ہونا اور ان کے ارشادات کا عامتہ الناس کے عقلی سطح سے بلند ہونا ہے۔

اور اسی کے سبب ہم ان لطیف ارشادات کو اپنی ناسمجھی کے وصف جانے کیا سے کیا تشریح کر بیٹھتے ہیں، اور اس کے باعث صاحبِ ارشاد زمانے میں مقہور اور جبر کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور میرے ممدوح کا بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، کہ جناب پر ایک کلاس میں بنائی گئی ویڈیو کی بناء پر (کہ جس کے اندر وہ قرآن کی بیان کردہ جنت کا مفہوم اس کی اصل روح کے مطابق بیان کرتے نظر آتے ہیں نہ کہ ملا اور پیر کی تخیل کی پیداوار جنت ) آنجناب سے ان کا مؤقف معلوم کیے بغیر گستاخی اسلام کا مقدمہ بنا کر پابندِ سلاسل کردیا گیا، اور یوں میرے مرشد و مربی آج جیل کے اندر اپنی قوم کو عقل و شعور عطا کرنے کے جرم میں اسی طرح اسیری کے ایام گزار رہے ہیں، جیسا کہ ہر دور کے اندر ان صاحبانِ ذی شعور کا شیوہ اور سنت رہی ہے۔ بقول فیض

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں جو کوئے یار سے نکلے، سوئے دار چلے

وہ صاحبانِ زمانہ جو نہ صرف عقل و شعور سے فیض یاب تھے، بلکہ اپنے اپنے دور کے اندر اس چراغ کو جلانے کا سبب تھے، وہ ضرور با الضرور تلخی ء ایام کا شکار ہوئے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ آنے والی تاریخ نے ان کو کن الفاظ میں یاد کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ میرے ممدوح بھی انہی برگزیدہ ہستیوں میں سے ہی تھے، کہ جو اپنے دروس و ارشادات کے ذریعے ہم جیسے عقل سے تہی دامن لوگوں کو اس نفیس ہنر سے آراء کرنے کی دھن میں مگن تھے، مگر ان کو شاید معلوم نہ تھا کہ یہ قوم نہ جانے کب سے عقل و شعور کو ٹھکرا کر محض خوشنما اور مسحور کن جذبات کی دنیا میں بسیرا کیے ہوئے ہے کہ جہاں عمل نام کی کسی چیز کا وجود عنقاء اور بے مقصد چلہ کشی کا صلہ جنت اور اس کے خوان ہیں۔ مگر اس کے لئے بقول حفیظ جالندھری

حقیقتیں آشکار کردے، صداقتیں بے حجاب کردے/ ہر ایک ذرہ یہ کہہ رہا ہے آ مجھے آفتاب کردے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).