اسلاموفوبیا چینل، ڈاکٹر شاہد مسعود، صابر شاکر اور اوریا مقبول جان


ہمارے محبوب وزیراعظم جناب عمران احمد خان نیازی نے ٹویٹر پر تمام دنیا کو مطلع کیا کہ انہوں نے عالم اسلام کے دیگر دو مقبول، بیدار مغز اور ذی شعور حکمرانوں سیدی رجب طیب ایردوان اور مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ تینوں ممالک ملک کر ایک ایسا انگریزی چینل شروع کریں گے جو اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرے گا اور اسلامی دنیا کی تاریخ سے غیر اسلامی دنیا کو روشناس کروائے گا۔

یہ اعلان پڑھ کر دل خوش ہو گیا ہے۔ انگریزی زبان میں ابھی تک کوئی ایسا چینل موجود نہیں تھا جو حق بیان کرتا۔ لیکن وزیراعظم کو چینل کے ماڈل پر تفکر کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس دو بہترین ماڈل موجود ہیں۔ پہلا تو مدنی چینل کا ہے۔

اگر اس کی نشریات کو انگریزی زبان میں دنیا تک پہنچانے کا بندوبست کر لیا جائے تو دنیا ہمارے عطاری صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے سوا اور کیا کرے گی؟ جب انہیں پتہ چلے گا کہ بدکاری سے بچنے والا مدنی چشمہ ایجاد ہو چکا ہے، موٹر سائیکل کی سواری کے وقت جذبات کو بے قابو ہونے سے بچانے کے لئے مدنی تکیہ استعمال کرنا تیر بہدف نتائج دیتا ہے، اور کھیرے کو کاٹنے کا درست طریقہ کیا ہے جس سے اس کی مثبت تاثیر بڑھ جاتی ہے اور منفی تاثیر و استعمالات کا تدارک ہو جاتا ہے، تو اہل مغرب اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر مسلمانوں سے نفرت نہیں کریں گے۔ وہ جان جائیں گے کہ یہ امن پسند لوگ ہیں جو مفید اور دل خوش کر دینے والے ریسرچ کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ایک سیگمنٹ عبقری کا بھی رکھ لیا جائے تو اہل مغرب اپنی روح میں بسی بے چینی، بے وفا زن و شو، گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کے کلچر اور فواحش و خمر سے بھی بچ جائیں گے اور ایک پرسکون اور خوشیوں بھری زندگی گزارنے کا راز اور وظائف جان لیں گے۔ اس ماڈل سے ان کے دل میں بسی یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی کہ مولوی حضرات بم بارود کے شائق ہیں اور وہ یہ حقیقت جان لیں گے کہ دم درود کا اثر ان سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک وظیفہ کسی دشمن کو دوست بھی بنا سکتا ہے اور دوسرا اسے خاک چٹا سکتا ہے۔

دوسرا ماڈل یہ ہے کہ اہل مغرب کو حالات حاضرہ کا سچا رخ دکھایا جائے۔ اس کے لئے ڈاکٹر شاہد مسعود، صابر شاکر، عارف حمید بھٹی اور اوریا مقبول جان جیسے نابغوں کو اس اسلاموفوبیا ٹی وی پر اینکر بھرتی کیا جائے۔

رخش تصور کو دوڑائیں۔ سوچیں کہ جب صابر شاکر اور عارف حمید بھٹی اس انداز میں نیتن یاہو اور ڈانلڈ ٹرمپ کے لتے لیں گے جیسے وہ نواز شریف اور آصف زرداری کے لیا کرتے ہیں، تو ان نابکاروں کو دنیا میں کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ دنیا ان کے بارے میں سچ جان جائے گی۔ اب یا تو وہ راہ راست پر آ جائیں گے ورنہ ان کے ملکوں کی نیب انہیں پکڑ کر اندر کر دے گی۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے ذریعے انہیں پتہ چلے گا کہ ان کے ملکوں میں ڈارک ویب پر کیا کیا قبیح حرکات کی جا رہی ہیں۔ پیسے کے پجاری کس طرح غریب ملکوں میں اپنا نیٹ ورک بنا کر اپنا مذموم بزنس کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ قیامت آنے میں کتنا عرصہ باقی ہے اور اس سے پہلے وہ کس طرح مسلمان ممالک کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوں گے۔

ہمیں امید ہے کہ اسلامی دنیا کی تاریخ سے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود ہی آگاہ کریں گے۔ جب وہ انگریزی میں بتائیں گے کہ کس طرح اسلامی عساکر نے مغرب کو بری طرح مارا تھا اور کام ایک ہزار سال تک اسے میدانِ جنگ میں شکست دیتے رہے تھے، تو وہ اپنی موجودہ برتری پر شرمسار ہوں گے اور اہل مغرب جان جائیں گے کہ خلیفہ عصر سیدی رجب طیب ایردوان نے بہ امر مجبوری امن کی بجائے جنگ کا راستہ اختیار کیا تو ان کا کیا حشر ہو گا۔

اوریا مقبول جان اہل مغرب کے لئے سب سے بڑی قیامت ہوں گے۔ ہماری رائے میں تو ڈاکٹر شاہد مسعود کو سب سے پہلے ان ہی کے بارے میں اہل مغرب کو خبردار کرنا چاہیے۔ سوچیں کہ جب اوریا مقبول جان امریکہ کی سیاست پر تبصرہ کر رہے ہوں گے اور ٹرمپ کو ڈانٹیں پھٹکاریں گے کہ ملینیا کیسا فحش و نامعقول لباس پہن کر غیر ملکی مہمانوں سے مل رہی ہے تو بچارہ ٹرمپ منہ چھپاتا پھرے گا۔ پھر جب اسے پتہ چلے گا کہ ملینیا کے اس لباس کی وجہ سے ہی امریکہ میں زلزلے اور طوفان آ رہے ہیں اور افغانستان میں اسے ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے تو اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ اوریا صاحب اس کی امریکی طرز معاشرت، ٹی وی اور فلم، اور اشتہارات پر ڈیڑھ ڈیڑھ سیکنڈ کی راہنمائی کریں گے۔

ہمیں امید ہے کہ یہ سب پروگرام دیکھ کر اہل مغرب اسلاموفوبیا ترک کر دیں گے۔ انہیں یقین ہو جائے گا کہ انہیں ڈرنے اور خوفزدہ ہونے کی ہرگز بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو یہ چینل دیکھ کر اتنا زیادہ خوش ہوں گے کہ ٹی وی آن کرتے ہی ہنسنے لگیں گے۔

آپ کو اگر ہماری بات پر یقین نہیں ہے تو مدنی چینل یا ان اینکر حضرات کی انگریزی میں ڈبنگ کر کے اپنے کسی جاننے والے انگریز کو دکھا دیں اور اس کا ردعمل دیکھ لیں کہ وہ اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر نفرت کر رہا ہے یا ایسا خوش ہوا ہے کہ بے اختیار ہنسنے لگا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar