عمران خان: محتسب، کشمیر کے سفیر، سعودی ایران ثالث یا محض مرزا ظاہر دار بیگ؟


وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ کے آخر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے ہر جمعہ کو 12 سے ساڑھے بارہ بجے کے دوران احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری پاکستانی قوم ہر جمعہ کو باہر نکل کر اور سڑکوں پر خاموش کھڑے ہوکر آزادی کشمیر کے لئے احتجاج کرے گی۔ 30 اگست کو اس سلسلے کا پہلا احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ شہروں میں سڑکوں پر ٹریفک روک دی گئی اور عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں اپنے اسٹاف کو جمع کرکے کشمیر آزاد کروانے کے لئے ایک دھؤاں دار تقریر بھی فرمائی۔ اس کے بعدتین جمعے گزر چکے ہیں لیکن احتجاج کرنے کے لئے اعلان شدہ اس طریقے پر دوبارہ عمل کرنے کی نوبت نہیں آئی۔

اس بحث سے قطع نظر کہ یہ طریقہ کس حد تک کارگر ثابت ہوتا یا اس سے پاکستان کے باشندے بھارت پر دباؤ میں کتنا اضافہ کرنے میں کامیاب ہوتے یا یہ کوشش رائیگاں جاتی، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آگے بڑھنے کی دھن میں عمران خان کو یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ گزرے ہوئے دن میں کیا فیصلہ کرچکے تھے۔ اس متلون مزاجی کا مظاہرہ پاکستانی وزیر اعظم آج کل نیویارک میں کررہے ہیں جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے گئے ہوئے ہیں۔

مظفرآباد میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے سفیر بنیں گے اور جنرل اسمبلی میں جاکر دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں گے۔ تاہم اب وہ افغانستان میں قیام امن کے منصوبہ سے فارغ خطی کے بعد ایران اورامریکہ کے درمیان ثالثی کے مشن پر گامزن ہو چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر پاکستانی حکومت کی ساری توقعات کا محور و مرکز اس وقت امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو اپنے مخصوص انداز میں عمران خان کو ’عظیم‘ لیڈر قرار دیتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کردیتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس اعلان کو پاکستانی خارجہ پالیسی کی شاندار کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے لئے ’ناگزیر‘ ہوچکا ہے۔

صدر ٹرمپ کو ناقابل اعتبار، بڑبولے اور ہر دم بات بدلنے والے لیڈر کی شہرت حاصل ہے۔ جولائی میں یوکرائن کے صدر کے ساتھ ہونے والی ایک گفتگو کی وجہ سے انہیں اب مواخذہ کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سوموار کو عمران خان کے ساتھ ملاقات سے چند گھنٹے پہلے وہ ہوسٹن میں نریندر مودی کے اعزاز میں منعقد کی گئی ریلی میں شرکت کرچکے تھے اور بھارتی وزیر اعظم کی پاکستان دشمن باتوں پر سر ہلاتے رہے تھے۔ اب انہوں نے نیویار ک میں نریندر مودی کے ساتھ باقاعدہ ملاقات کے موقع پر مودی کو ’فادر آف انڈیا‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ نریندر مودی نے انتشار کا شکار بھارتی قوم کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے جیسے ایک باپ اپنے بچوں کو اکٹھا کرتا ہے۔

 یہ وہی لڑی ہے جس کے بارے میں عمران خان کا خیال ہے کہ یہ نفرت کی زنجیر ہے جس کے ذریعے بھارت کے ایک ارب ہندوؤں کو اس ملک میں آباد دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت اور ہلاکت خیزی پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ ٹرمپ جس مودی کو بھارت کے باپ کا درجہ دیتے ہیں اور ان کے لئے حتی الامکان احترام کا اظہار کرتے ہیں، عمران خان اسی مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اگر دنیا نے اس کی فاشسٹ اور ہندو نسل پرستانہ پالیسیوں کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہ کی تو دنیا میں بربادی کا ایک نیا طوفان سامنے آئے گا۔ باقی لوگوں کی بات تو جانے دیں عمران خان اپنے ممدوح ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اپنی رائے تبدیل کرنے یا کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف کوئی دوٹوک بات کہنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

اس کے باوجود جب عمران خان بڑے فخر سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ اب وہ ٹرمپ کی درخواست پر ایران کے ساتھ امریکہ کی صلح کروانے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں تو اندازہ کیا جانا چاہئے کہ پاکستانی وزیر اعظم نہ صرف اپنی حیثیت و صلاحیت کے بارے میں شدید غلط فہمی کا شکار ہیں بلکہ وہ ایک ایسے منصوبہ میں ملوث ہونے کا ارادہ کر رہے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نکلنے کی امید نہیں ہے۔ جس ملاقات میں ٹرمپ نے عمران خان کو ایران کے ساتھ ثالثی کی درخواست گزاری تھی، اسی میٹنگ سے پہلے پریس کانفرنس میں عمران خان کو ساتھ بٹھا کر انہوں نے ہی یہ کہا تھا کہ ’میں تو ثالثی اور مدد کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ پاکستان اور بھارت دونوں اس بات پر تیار ہوں‘۔ سب جانتے ہیں کہ بھارت کشمیر یا پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے سوال پر تیسرے فریق کی مداخلت سے صاف انکار کرتا رہا ہے۔ تو کیا عمران خان نے بھی ایران کے ساتھ ثالثی کے لئے ٹرمپ کی درخواست کے بعد یہ کہا تھا کہ اگر ایران بھی ایسی ہی درخواست کرتا ہے تو میں ہر طرح کی امداد کرنے کو تیار ہوں؟

ایران اور امریکہ کا معاملہ تہ دار اور پیچیدہ ہے۔ پاکستان، ایران کا ہمسایہ اور سعودی عرب کا زیر بار ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں پاکستانی باشندے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کام کرتے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کو ناراض کرنے کی صورت میں ان پاکستانی شہریوں کا روزگار بیک جنبش قلم ختم کیا جا سکتا ہے جس کے سنگین معاشی و سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان اپنے زرمبادلہ کا بیشتر حصہ جن تارکین وطن کے ذریعے حاصل کرتا ہے، وہ سعودی عرب اور امارات میں ہی کام کرتے ہیں۔ اسی لئے ہر پاکستانی لیڈر ایران کے خلاف سعودی عرب کی مخاصمانہ اور جارحانہ حکمت عملی کے باوجود ’حرمین شریفین‘ کی حفاظت کے نعرے میں لپٹی سعودی شاہی خاندان کے بقا کی جنگ میں ہر حد تک جانے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

ایسا کمزور اور دوسرے ملکوں کی امداد پر انحصار کرنے والا ملک کیوں کر دنیا کی سپر پاور اور اپنے ایک منہ زور ہمسایہ ملک کے درمیان مصالحت کروانے کا ارادہ باندھ سکتا ہے؟ کیا عمران خان نے ٹرمپ کی بات پر قدم آگے بڑھانے سے پہلے ایران امریکہ تنازعہ یا ایران کے بارے میں ٹرمپ کے عزائم پر تحقیق کرلی تھی؟ انہیں تو ابھی تک یہ جاننے میں بھی مشکل کا سامنا ہے کہ القاعدہ کو پاکستان نے تیار کیا تھا یا یہ گروہ سوویٹ افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والے بحران و انارکی کے حالات میں طاقت ور ہؤا تھا۔ دنیا کو سبق یاد کروانے، تاریخ پڑھانے اور مسلمانوں یا افغان باشندوں کی نفسیات پر لیکچر دینے کے شوقین عمران خان کو پہلے خود اپنی صلاحیتوں کو صیقل کرنے، داخلی حساسیات کی مبادیات سے آگاہ ہونے اور قومی حکمت عملی کے خد و خال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

عمران خان جس وقت مشن کشمیر پر نیو یارک میں مقیم ہیں، اس دوران پاکستان میں حکومت کے خلاف احتجاج منظم کرنے اور اس کا بستر گول کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ معاشی، سیاسی اور سماجی سطح پر تحریک انصاف کی حکومت کوئی کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس سیاسی گھٹن اور میڈیا پر پابندیوں کا ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے جس میں متوازن اور متبادل رائے کی کوئی گنجائش موجود نہیں رہی۔ پاکستان کے داخلی مسائل کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے سنگین حالات اور بھارت کے ساتھ پیدا ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے، اس وقت ملک میں حکومت تبدیل کرنے کی بات کرنے کا مناسب وقت نہیں ہے۔ نہ ہی اس بات کی اجازت دی جانی چاہئے کہ جو طاقتیں عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کے شوق میں تحریک انصاف کو انتخابات میں کامیاب کروانے کا سبب بنی تھیں، اب ان کا ہی ہاتھ تھام کر عمران خان سے نجات کا راستہ تلاش کیا جائے۔ ایسا کوئی بھی اقدام جمہوریت کی اساس اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے رو گردانی ہو گا۔

تاہم اپوزیشن کو کسی بھی غیر جمہوری طریقہ یا ہتھکنڈے کے بارے میں متنبہ کرنے سے پہلے حکمرانوں کو بھی اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے بعد پاکستان کو جس قومی بحران کا سامنا ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت نے قومی مفاہمت پیدا کرنے اور کشمیر میں یا سرحدوں پر بھارتی جارحیت کا سامنا کرنے کے لئے ایک متفقہ قومی بیانیہ سامنے لانے کے لئے کیا اقدام کیا ہے۔ عمران خان بزعم خویش جمعہ کو جنرل اسمبلی میں خطاب کے ذریعے ’کشمیر آزاد کروانے‘ کا تہلکہ خیز کرشمہ دکھانے والے ہیں۔ لیکن عمران خان کی گفتگو اور سیاسی قلابازیوں کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ باور کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں وہ کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکال بیٹھیں جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے۔

پاکستان میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات ناقابل قبول اور استصواب کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہیں۔ تاہم نریندر مودی کی صورت میں انتہا پسندی کی جو آندھی اس وقت برصغیر کے سر پر منڈلا رہی ہے، اس سے قومی سطح پر متفقہ فہم و ادراک اور اتحاد و اشتراک کی صورت میں ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت اس اتفاق رائے کے لئے کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ پھر کشمیر کا مقدمہ کن ہتھیاروں سے لڑا اور جیتا جائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali