وزیراعظم کا اعتراف جرم یا مغرب پر فرد جرم؟


وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لئے امریکا میں موجود ہیں۔ تین دنوں میں وہ پندرہ سے زائد سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ اس دوران وہ مختلف فورمز سے خطاب بھی کرچکے ہیں۔ اپنے ایک خطاب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان نے القاعدہ کو جنگی تربیت دی تھی۔ اس بیان کے بعد بعض دانشوروں اور سیاست دانوں نے آسمان سرپراٹھا لیا ہے کہ وزیراعظم نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی فوج اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے دہشت گردوں کی تر بیت کی ہے، بلکہ اس کا تو براہ راست مطلب اعتراف جرم ہے اور ملکی اداروں کے خلاف چارج شیٹ بھی۔

وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پرواویلا کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ سوچنا یہ ہے کہ یہ اعتراف جرم ہے یا امریکا اور دوسرے ممالک سے شکایت؟ ممکن ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے بیان کو لوگ سمجھ نہ سکے ہوں یا وہ سمجھانے میں ناکام ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کا مقصد ہرگز اعتراف جرم نہیں اور نہ ہی پاکستانی اداروں کے خلاف چارج شیٹ ہے بلکہ اس کا مقصد امریکا اور دیگر کئی ممالک سے شکوہ کرنا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکا کو یاد دلایا کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو ہم تمھارے ساتھ تھے۔

عالم عرب سے سعودی عرب اور امریکا نے اسامہ بن لادن اور شیخ عبداللہ عزام کے توسط سے نوجوانوں کو افغان جہاد کے لئے اکٹھا کیا۔ پاکستان نے واشنگٹن اور ریاض کے کہنے پران کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی۔ پاکستانی اداروں نے امریکا اور سعودی عرب کے مطالبے پر ہی مجاہدین کے لئے جنگی تربیت کا اہتمام کیا۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں امریکا، سعودی عرب اور پاکستان اہم اتحادی تھے۔ سعودی عرب کی ذمہ داری تھی افرادی قوت مہیا کرناجو وہ عرب دنیا، افغانستان اور پاکستان سے فراہم کر رہے تھے۔

امریکا کے ذمے مجاہدین کے اخراجات یعنی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری تھی جبکہ پاکستان کاکام مجاہدین کو جنگی تربیت دینا تھا۔ القاعدہ کو تربیت دینے کا وزیراعظم عمران خان کا بیان کوئی نیا انکشاف نہیں کہ جس سے امریکا، سعودی عرب، روس، ایران اور بھارت اس سے قبل باخبر نہیں تھے۔ نہ ہی یہ کوئی خبر ہے کہ جس کے بارے میں امریکا کو پہلے سے معلوم نہیں۔ اصل میں وزیراعظم کا یہ بیان امریکا اور دیگر ممالک سے شکوہ تھا کہ تمھارے کہنے پر پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو اپنی زمین استعمال کرنے اور جنگی تربیت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

پھر جب آپ نے ان مجاہدین کو بنیاد پرست کہا تو پاکستان نے تمھاری آواز میں اپنی آواز شامل کرتے ہوئے انہیں بنیاد پرست مان لیا۔ بنیادی پرستی کے بعد آپ نے ان مجاہدین پر انتہاپسندی کا لیبل لگایا تو پاکستان نے تمھاری ہی ہاں میں ہاں ملا دی۔ پھر جب آپ نے انہی مجاہدین کو دہشت گرد کا لقب دیا تو پاکستان نے بلا کسی عذرکے تمھارے ہی جمع کردہ مجاہدین کو دہشت گرد تسلیم کر لیا۔ لیکن اب جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان مقبوضہ جموں وکشمیر کا مسئلہ سنگین صورت حال اختیار کرگیا ہے تو آپ سب نے اپنے لب سی لئے ہیں۔

یزید سے دوستی بھی ہے اور حسین سے محبت کے دعوے دار بھی ہو۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان امریکا اوردیگر ممالک کو یاد دہانی تھی کہ جب 9 / 11 کا حا دثہ ہوا اور آپ نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ القاعدہ اور دیگر مجاہدین کو اپنی سرزمین سے بے دخل کردیں تو پاکستان نے یہاں ان کے تمام تربیتی کیمپ بند کر دیے۔ تمام عرب اوردیگر غیر ملکی مجاہدین کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اس حکم نامے کے بعد بعض عرب مجاہدین افغانستان چلے گئے لیکن زیادہ ترنے واپسی سے انکار کیا۔

پاکستان نے سابق قبائلی علاقہ جات میں ان کے خلاف فوجی آپریشن کیا۔ مالاکنڈ ڈویژن میں ان کے خلاف کارروائی کی۔ جب پاکستان، امریکا اور سعودی عرب کے کہنے پر مجاہدین کو تربیت دے رہا تھا تو امریکا اور سعودی عرب نے بھی بعض اقدامات پر آنکھیں بند کرلی تھیں۔ پاکستان اگرایک طرف افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کے لئے مجاہدین تیار کر رہا تھا تو دوسری طرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بھارتی جارحیت کے خلاف مجاہدین کوتربیت دے رہا تھا۔

لشکر طیبہ، حزب المجاہدین اور دیگر تنظیموں کی مکمل سرپرستی کی جارہی تھی۔ امریکا چونکہ افغان جنگ میں پاکستان کا اتحادی تھا اس لئے وہ صرف نظر کرتا رہا۔ جیسے ہی افغان جنگ ختم ہو ئی تو پھر امریکا نے بھی پالیسی بدل ڈالی، لیکن پاکستان نے بھی پالیسی تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگائی اور جنرل پرویز مشرف نے تمام جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی۔ اب جب بھارت کو محسوس ہوا کہ پاکستان نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی عوام کی جنگی مدد بند کردی ہے تو انھوں نے بلاتا خیرمقبوضہ جموں وکشمیر کی حیثیت کو تبدیل کردیا۔

ان تمام تر خدمتوں کے باوجود امریکا کا موجودہ حالات میں پاکستان کا ساتھ نہ دینا زیادتی اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا یہ شکوہ بھی جائزہے ورنہ ان کے اس بیان میں کچھ نیا نہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان بالکل اسی طرح ہے کہ اگر سابق افغان صدر حامد کرزئی بیان دے دیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لئے بھارت، افغانستان کی سرزمین استعمال کر تا رہا ہے۔ اگر حامد کرزئی یا مدت مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی اسی طرح کا بیان جاری کرتے ہیں تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اس لئے کہ پوری دنیا پہلے سے جانتی ہے کہ بھارت، پاکستان میں دہشت گردی کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے۔

جو کچھ وزیراعظم عمران خان نے امریکا میں کہا ہے پوری دنیا اس سے اچھی طرح آگاہ ہے بلکہ اب تو وہ یہ سب کچھ بھول بھی چکے ہیں اگران کویاد ہوتا تو آج مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے پرواشنگٹن، اسلام آباد کے ساتھ کھڑا ہوتا، اس لئے وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان صرف ایک یاد دہانی ہے یا سوویت یونین کے خلاف اپنے اتحادیوں امریکا اور سعودی عرب سے ایک شکوہ اور شکایت ہے۔ اسی طرح کا ایک شکوہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی جرمنی میں ایک سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا تھاکہ پاکستان چالیس سال پہلے کا بویا ہوا کاٹ رہا ہے۔

ان کا اشارہ بھی اسی طرف تھا کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کو اتحادی بنانا پاکستان کی غلطی تھی، اس لئے کہ پوری دنیا میں پہلے سے مشہور ہے کہ امریکا دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔ ان تمام ترقربانیوں کی یاد دہانیوں کے باوجود وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا دل کوشق کر دیتا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسئلے پرعالمی برادری نے مایوس کیا۔ اگر چالیس سال کے دواہم اتحادی ممالک آج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں تو پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام آباد ازسرنو اپنی پالیسوں کا جائزہ لیں اور ان خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کریں کہ جو ملکی سالمیت اور خودمختاری کے لئے خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).