ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟


روایات میں آتا ہے جب حضرت موسی کوہِ طوُر پر تشریف لے گئے تو ان کی قوم نے آپ کی تعلیمات چھوڑ کر سامری کے بنائے گئے بچھڑے کی عبادت شروع کر دی۔ آپ کے واپس تشریف لانے اور ناراضگی کے اظہارپر لوگ تائب تو ہو گئے مگر تاریخ انسانی گواہ ہے کہ لوگوں نے گؤسالہ سامری کی پرستش کبھی بھی نہِیں چھوڑی ہاں اس کی شکلیں بدل گئیں۔ ادِھر وطنِ عزیز میں پِچھلی چند دہائیوں میں اخلاقی اقدار اور روایات نے وہ قلابازیاں کھائی ہیں کہ الامان و الحفیظ! صورتِ حال یہ ہے کہ اب لفظ اخلاقی انحطاط بے معنی دِکھنے لگا ہے اور دل چاہتا ہے کہ اب کوئی نیا لفظ ایجاد ہو جو اس صورتِ حال کو بیان کر سکے۔ ترقیّ کی سیڑھیاں چھڑتے جس تیزی سے ہم تنزّل کا شکار ہوئے ہیں شاید اس کی مثال کہیں اور مل سکے۔ بقولِ عبیدﷲ علیم

یہیں خطۂ زمیں ہے کبھی رحمتیں تھیں نازل یہیں خطۂ زمیں ہے کہ الم برس رہے ہیں

پولیس ہے تو وہ حفاظت کی بجائے دہشت کی علامت بنی ہوئی ہے، تعلیم کا شعبہ ہے تو کہیں اساتذہ قاتل ہیں تو کہیں شاگرد استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے کی بجائے ان کی گردنیں مارنے پر آمادہ ہیں، ڈرامہ اور فلم انڈسٹری ہے تو وہ روایات و کلچر کے نام پر کبھی عورت کو انتہائی مظلوم اور کبھی عریاں کر کے نہ جانے کون سا خلائی کلچر دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں غرض ”روؤں دل کو یا پیِٹوں جگر کو میں“ کے مصداق سارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ مگر یہ نوحے تو سالوں سے ہو رہے ہیں، اخباروں کے کالم کے کالم حالات کی مرثیہ خوانی سے بھرے ہوئے ہیں مگر اس کا علاج کیا ہے۔ علاج یہ ہے کہ زندگی کا بنیادی فلسفہ سیکھئے ۔ حالی فرما گئے تھے

یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

جب سب کا خدا ایک ہے تو دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں۔ کسی کو جنت اور جہنم کے ٹکٹ بانٹنے کی کوشش نہ کریں۔ ظلم، زیادتی اور برائیوں پر سوال اٹُھانا سیکھیں، جو قومیں سوال کرنا نہیں جانتیں ان کی شناخت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ کسی برائی کو دیکھیں تو اس کے پاس سے یوں نہ گزر جائیں کہ یہ آپ کا مسٔلہ نہیں، ہو سکتا ہے وہ کل کو آپ کا مسٔلہ بن جائے ۔ سوال اور جستجو نے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ بخشا ہے، اگر ہم سوال نہیں اٹھاتے تو ہم اسی وقت اس اسٹیٹس سے گر جاتے ہیں۔

ہمیں اچھے اخلاق سیکھنے کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا یا کسی بھی فورم پر آپ کو کسی کی کوئی چیز پسند نہیں آتی تو اس پر گندے کمنٹ کرنے کی بجائے اس سے گزر جائیں کہ ہر شخص کو آزادئی اظہار کا حق ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ فلم اور ڈرامہ سب سے مؤثر ترین میڈیم ہے جس سے ہم قوم کی سوچ میں ایک مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ایسی عریاں اور بے باک فلموں اور روتے دھوتے ڈرامے دکھانے کی بجائے اگر ان کا قبلہ صحیح سمت میں موڑ لیا جائے تو ہم اس ڈوبتی نیاّ کو شاید پار لگانے میں کامیاب ہو جائیں اس سے پہلے کہ ہماری داستان تک نہ ہو داستانوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).