یورپین سیر اور اسیران وطن


قطر ائیرویز کی پرواز نمبر 621 نے لاہور ائیر پورٹ سے صبح تین بجے اڑان بھری اور دوحہ ایئرپورٹ کی ایک اور یاترا کروا ڈالی۔ راستے بھر میں Air Turbulence کی شدت نے بھی نیند سے غافل ہونے نہیں دیا۔ شاید پاکستانی ہوائی معیشت کے اثرات اب ہوائی جھٹکوں کی صورت میں جہازوں کا بھی برا حال کرتے ہیں۔ مگر سونا تو ہم جیسوں کا قومی مشغلہ ہے، ظاہر ہے اب حامل ہذا کو مطالبے پر ادا کرنے سے تو رہے نہیں۔ یہ عربی شہزادے کاہے کو ہوتے ہیں، معاشی ٹیکوں کے بدلے ملکی ٹھیکا آسان شرائط پر!

خیر۔ یہ معمولات انمول نہیں۔ دوحہ ایئرپورٹ ویسا ہی تھا اور وہ بھالو کا مجسمہ بھی وہیں۔ باہر کی دنیا میں ’مجسمے‘ عوامی مقامات پر نصب ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں کی حکومتوں میں بٹھائے جاتے ہیں تو پھر کم و بیش ایک ہی شہر پر مشتمل یہ ملک بھی سیاحت میں ہم سے آگے کیوں نہ نکلے! (یورپ کے سفری پڑاؤ میں قطر سے دوسرا جہاز بدلا گیا۔ پرواز ٹھیک چھ گھنٹے لیٹ تھی ) اگلے جہاز میں پہلے تین گھنٹے اگلی نشست کے پیچھلے حصے پر ٹکٹی باندھے فلمائے جاتے رہے۔

پھر کچھ دیر بعد جہاز آسٹریا کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہوئے سطح سمندر سے 34000 فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ زیورخ ابھی پینتالیس منٹ کی ہوائی مسافت پر تھا۔ حسب معمول نیند سے آنکھ جو کھلی تو معلوم پڑا کہ کمپلیمنٹری وائی فائی کی سہولت بھی میسر ہے۔ کچھ واقعتاً تھوڑا عجیب سا ہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ ہوا میں سفر کے دوران بھی ان برقی و مقناطیسی لہروں کی بدولت اپنی آنکھوں دیکھا حال، احساسات لفظوں کی صورت ریکارڈ کر سکتے ہیں۔

یہ روابط کی تیزی کا زمانہ ہے مگر اس کے ضابطے کچھ علیحدہ نوعیت کے ہیں۔ آپ بیکوقت فاصلے و تعلق داریوں میں لوگوں کے بہت قریب بھی ہیں اور بہت دور بھی۔ نہیں معلوم ہوتا کہ برابر والی سیٹ پر کون سفر کر رہا؟ دنیا کے کس خطے سے ہے؟ اور پھر زبان کا بیرئیر ہو تو بندہ محض انسانی چمڑی ہی کی بنیاد پر اندازے لگاتا۔ یا پھر سفر سے قطع نظر، زمانے کی تیزی کہیے یا ہیجان، برابر میں رہتے ہمسایوں کا پتہ تک نہیں ہوتا۔

تو پھر یہ ضابطے کچھ عجیب ہی لگتے ہیں۔ ٹیکنالوجی انسانی معیارات زندگی کو جاوداں تو کرتی ہے مگر چھین بھی لیتی ہے بہت کچھ۔ فطری انسانیت۔ پھر طبقاتی نظام انسانوں کی پیداوار ٹھہرتے ہیں۔ اب جیسے معلوم پڑا کہ جہاز کی بزنس کلاس کا وائی فائی مکمل سفر کے لیے فری ہے اور اور اکانومی والوں کے لیے محض آدھا گھنٹا۔ ۔ انسانی نظام سے بر عکس، ہوائی سفر میں اگر نیچے کا مطلع صاف ہو تو قدرت کا نظام بھی دنگ کر دیتا ہے۔

صحرائی علاقوں سے نیلے گہرے پانیوں کے سمندر تک۔ پھر برف پوش چوٹیاں اور بادلوں کا نظام۔ آسمان کا لامحدود نیلا پن۔ میدانی علاقے۔ غرض پورا ایک ایسا نظام ہے جس کی مقصدیت ہم نے کہیں بھلا دی ہے۔ غور و فکر سے پرے دور کے زمانے۔ ایک ریکارڈ اپ لوڈ ہوتی Synopsis ہو جیسے۔ اب زیورخ آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ کچھ دیر بعد زیورخ ہوائی اڈے کے باہر شام سات بجے ٹھنڈی چیرتی ہوا کے تھپیڑوں نے منہ سے لپٹ کے استقبال کیا۔

زیورخ ایک شہر بے مثال ہے۔ بدلتا ہی نہیں۔ کہ ایک ہی جگہ آپ متعدد بار دیکھیں یا وہاں کا سفر کریں تو شاید آپ کا تجسس کچھ ماند پڑ جائے۔ مگر زیورخ ہر بار کوئی نہ کوئی نیا زاویہ ضرور دکھاتا ہے۔ مثلاً الیکٹرک ٹرامز کا اتنا systematic نظام، ایک ہی سڑک پر محض دو یا حد چار پٹریوں پر چلنے والی پندرہ لائینیں، باقی مواصلاتی ذرائع سے۔ Systematic synchronization کمال است ہے۔ مگر ٹریفک پھر بھی ایک مسئلہ کی صورت بہر حال موجود رہتی ہے۔

پھر پیدل چلنے والوں کے احترام کی شدت۔ اب ہمارے جیسے زیبرا کراسنگ پر بھی شش و پنج میں ہوتے ہیں کہ اب کریں پار کے اب کریں مگر گاڑی والے تسلی سے روک کر سڑک پر چلنے کا پہلا حق آپ کا سمجھتے ہیں اور ہم پھر بھی کھسیانے و شرمندہ ہو کے ہی کراس کرتے ہیں کہ کہیں گالیاں ہی نہ دے رہا ہو! ہمارے ہاں برصغیر کے لوگوں میں بنیادی حق اور انفرادی فرائض کے مابین فرق بارے ایک بہت بڑا تربیتی فقدان موجود ہے۔ اور یہ بنیادی سطح سے اوپر تلک بڑھتا جاتا ہے۔

یہاں تک سچائی میں۔ ایمانداری میں۔ ہم آہنگی میں۔ اپنے حق و فرض کے مابین بنیادی فرق یا وہ لکیر ہم کھینچ نہیں پاتے۔ صرف انتہاؤں کو پسند کرتے ہیں۔ اب ٹرام کی ایک طرف کی ڈھائی فرانکس کی ٹکٹ پر چار دفعہ سفر کر کے اپنی خصلت ثابت کی ہے۔ ویسے تو صبح بھی اس ایک طرفہ ٹکٹ پر کام چل جائے گا کہ ان کو اپنے لوگوں پر یقین ہے مگر اتنی ضمیر فروشی و ڈھٹائی اچھی نہیں۔ زیورخ میں حسب توقع سردی کی شدت رات گے زیادہ تھی۔ شاید اسی لیے مرد و زن جگہ جگہ آپس میں چپکے ہوے زیادہ تھے۔ ظاہر ہے سردی زیادہ لگتی ہو گی مگر اب پوری منظر کشی کیوں کریں صاحب! اپنی سوچ کو تالا لگائیں کہ یہ ہی جچتا ہے! (زیورخ کی سرد رات سے۔ جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).