بھٹو سے عمران خان تک ایک ہی روایت کا تسلسل


”کہیں جنرل ایوب خان بُرا نہ مان جائیں“ یہ الفاظ ذوالفقار بھٹو کے ہیں جس کے راوی سابق جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم ہیں انہوں نے اپنی کتاب ”اپنا گریبان چاک“ میں لکھا ہے کہ ”ذوالفقار بھٹو نے بڑی کوششوں اور کاوشوں سے سکندر مرزا کی صدارت کے زمانے میں اُن تک رسائی حاصل کی تھی۔ خالص جاگیردارانہ انداز میں کئی ہفتے اُنھیں سردار عبدالرشید مرحوم کے ذریعے ایوان صدارت کے باورچی خانوں میں پکنے کے لیے مرغیاں بھجواتے رہے۔

”پھر جب راہ رسم بڑھی تو سکندر مرزا کے اعزاز میں کراچی میں اپنے عالی شان گھر میں پُرتکلف شیمپین پارٹی دی۔ بالآخر سکندر مرزا نے 1956 ء کا آئین ختم کر کے اُنھیں اپنی کابینہ میں شامل کر ہی لیا بعدازاں جب جنرل ایوب نے سکندر مرزا کو نکال باہر کیا تو بھٹو اُن کی کابینہ میں موجود رہے یعنی جنرل ایوب خان اُن کے قبلہ و کعبہ بن گئے اُس کے بعد انھوں نے سکندر مرزا سے آنکھیں پھیر لی تو میں نے اُن سے پوچھا آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو اُن کا جواب صرف یہی تھا کہ کہیں جنرل ایوب ناراض نہ ہو جائیں۔“

کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کو بھٹو ”ڈیڈی“ کہا کرتے تھے مگر جب ایوب خان کے اقتدار کو زوال آنا شروع ہوا تو بھٹو نے ایوب خان کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے بارے میں قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں کہ ”ایوب خان کے زوال کا وقت شروع ہوا بھٹو عرصہ سے موقع کی تاک میں تھے لوہا گرم دیکھ کر انھوں نے ہتھوڑے کی ضرب لگائی اور ایوب کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کر دیا بھٹو نے 21 ستمبر 1968 ء کے روز حیدرآباد میں ایک جلسے کا اہتمام کیا اس جلسے میں اُنھوں نے ایوب کے خلاف تندوتیز تقریر میں قسم کھائی کہ وہ صدر ایوب کو مسند اقتدار سے اتارے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے انھوں نے ایوبی دور حکومت پر شدید نکتہ چینی کے علاوہ ایوب کی ذات پر بزدلی، بدیانتی، خیانت اقرباء پروری اور سیاسی بدنیتی کے بے شمار الزامات لگائے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یہ سب کچھ سیاسی مصلحت تھی تو پھر سیاسی مصلحت عام اخلاق کی ‘ساس’ ہے۔“

اقتدار حاصل کرنے کے لیے مُحسن کُشی اور طاقتور مقتدرہ کے ساتھ راہ رسم بڑھانا نئی بات نہیں۔ جب اقتدار مل جاتا ہے تو پھر مقتدرہ کے کچھ عرصہ تک ناز بھی اُٹھائے جاتے ہیں۔ بھٹو اقتدار میں نئے نئے آئے تھے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ ”ایک کرنل کسی کریمنل کیس میں ملوث تھا معاملہ جسٹس شمیم حسین قادری کے پاس پہنچا۔ انھوں نے فوجی کرنل کو بُرا بھلا کہا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جس پر بھٹو نے چیف جسٹس سردار اقبال کو اسلام آباد طلب کر لیا اور ہدایت کی کہ اپنے جج صاحبان کو سنبھالیے ’ہم ابھی جنگل سے باہر نہیں نکلے‘ سردار اقبال نے جسٹس قادری تک بھٹو کا پیغام پہنچایا جسٹس قادری اتنے خوفزدہ ہوئے کہ وہ کمانڈر انچیف جنرل ٹکا خان تک پہنچے اور اُن کی درازی عمر کے لیے بکرے کی قربانی دی۔“

سیاسی مصلحت یہاں نہیں رُکی پاکستان کے ہر لیڈر نے عام اخلاق کی ”ساس“ سے کام لیا 29 مئی 1988 ء کو جونیجو حکومت کو آمر ضیاء نے برطرف کیا تو میاں نواز شریف نے اپنے پارٹی قائد محمد خان جونیجو کی بجائے قومی و صوبائی اسمبلیاں برطرف کرنے والے آمر ضیاءالحق کا ساتھ دیا۔ سانحہ بہاولپور کے بعد جن لوگوں کی زبان پر مرد مومن مرد حق ضیاءالحق ضیاءالحق کا نام تھا اُن میں میاں نواز شریف بھی شامل تھے بلکہ فیصل مسجد کے احاطے میں ضیاءالحق کی برسی پر انھوں نے ببانگ دھل اعلان کیا کہ آج بھٹو نظریہ دفن ہو چُکا ہے اور ضیاء نظریہ کا احیاء ہوا ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی سیاسی مصلحت سے کام لیتی رہیں۔ جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازنے کے پیچھے یہی مصلحت تھی کہ کسی نہ کسی طرح اقتدار بچا رہے۔

زرداری کو تو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ بی بی کی شہادت پر انھوں نے ق لیگ کو قاتل لیگ کا نام دیا پھر اسی قاتل لیگ کے رہنما چوہدری پرویز الہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنایا۔ جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی۔ کہا یہ گیا کہ جنرل کیانی جمہوریت دوست فوجی قائد ہیں اس لیے ان کی مدت ملازمت میں توسیع ناگزیر ہے۔

وزیراعظم عمران خان بھی اپنے سابقین کی روش پر چل رہے ہیں اقتدار میں آنے سے قبل وہ ایم کیو ایم پر تبریٰ بھیجا کرتے تھے اقتدار حاصل کرنے کے لیے اُسے سینے کے ساتھ لگانا پڑا۔

یوں ہم جمہوریت جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ہیں مگر جمہوری کلچر کو پروان نہیں چڑھاتے۔ ہم ابھی ”جمہوریت“ کی صحیح طور تشریح ہی نہیں کر پائے۔ بظاہر ہم لبرل بھی بنتے ہیں اور اندر سے قدامت پسند بھی ہیں۔ ہم جمہوریت کے داعی بھی بنتے ہیں اور اندرخانے مقتدر قوتوں سے ڈیل بھی کرتے ہیں۔ جب تک سیاسی مصلحتوں سے ہم اوپر نہیں اُٹھیں گے ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui