طالبات جمعیت کے خلاف احتجاج مت کریں


گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ پشتون طلبہ کا سالانہ ”یوم پٹائی“ منایا گیا۔ ہر برس کی طرح بلاوجہ ہی جمعیت نے کا نام لیا گیا کہ اس نے غنڈہ گردی کی ہے۔ اس سلسلے میں تین موقف سامنے آئے ہیں۔

پہلا اسلامی جمعیت طلبہ کا ہے۔ اس کے مرکزی ترجمان رانا عثمان نے پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ اس نے جمعیت کے ساتھ مل کر کشمیر پر ایک کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جس میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فارق حیدر مہمان خصوصی تھے، یہ دیکھ کر جمعیت کے مخالف طلبہ گروپ جل گئے اور انہوں نے جھگڑا شروع کر دیا۔

بظاہر یہ بیان لطیفہ لگتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کسی ایک طلبہ تنظیم کے ساتھ مل کر کسی ایسی کانفرنس کا انعقاد کرے گی اور ایک بہت مختصر سی تعداد والا گروہ ایک بہت بڑے اکثریتی گروہ سے غنڈہ گردی کرے گا، لیکن رانا عثمان کی بات کو عقل اور منطق سمیت کون جھٹلا سکتا ہے؟

دوسرا بیان بلوچ کونسل کے چیئرپرسن عامر بلوچ کا ہے جو کہتے ہیں کہ وہ دو دیگر طلبہ کے ساتھ ایک گاڑی میں نئے طلبہ کے داخلہ فارم جمع کروانے جا رہے تھے کہ ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔ ایک ویڈیو بھی ہماری نظر سے گزری جس میں طلبہ کی ایک بھاری جمعیت انہیں پیٹ رہی ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق یہ اسلامی جمعیت ہے۔ عامر بلوچ کا الزام ہمیں تو غلط لگتا ہے، انہیں صرف پیٹا گیا ہے، ابھی مارا نہیں گیا۔

تیسرا موقف پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کا ہے۔ اس کے ترجمان نے کہا ہے کہ کوئی غنڈہ گردی نہیں ہوئی، بس ایک کار اور موٹر سائیکل کی ٹکر ہوئی ہے جس سے کچھ جھگڑا ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ ہمیں آفیشل موقف پر یقین کرنا چاہیے۔

بہرحال یہ سب فروعیات ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس سے اگلے دن طلبہ اور طالبات کی ایک بڑی تعداد نے جلوس نکال دیا کہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی بند کی جائے، بلوچ پشتون اور سندھی طلبہ پر تشدد بند کیا جائے، وغیرہ وغیرہ۔

زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان جلوسوں میں طالبات کی بڑی تعداد نمایاں تھی اور وہی جلوس کو لیڈ کر رہی تھیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ زیادہ تر طالبات کے سر پر دوپٹہ اور بہت سوں کے منہ پر نقاب گواہی دے رہا تھا کہ وہ بہت مشرقی سوچ رکھتی ہیں اور نہایت شرم حیا والی ہیں اور اس کے باوجود وہ مشرقی اقدار اور طالبات کی واحد محافظ اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف جلوس نکال رہی تھیں۔

کیا انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ وہ یونیورسٹی میں صرف اس وجہ سے تعلیم حاصل کر رہی ہیں کہ ادھر جمعیت نے ایک نہایت پاکیزہ اور پرامن ماحول فراہم کرنے کا جوا اٹھایا ہوا ہے۔ وہ اس امن کے قیام کی خاطر کسی قسم کی مار پیٹ سے ہرگز نہیں گھبراتی۔ اخلاقیات کا ایسا تحفظ ہے کہ کوئی لڑکی پنجاب یونیورسٹی میں کسی نامحرم شخص کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ بلکہ اس حد تک احتیاط کی جاتی ہے کہ نامحرم کے علاوہ وہ محرم شخص کے ساتھ بھی اٹھنے بیٹھنے کا تصور نہیں کر پاتی ورنہ محرم شخص کئی دن تک اٹھنے بیٹھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اور کمال یہ ہے کہ یہ سب کچھ نہایت پرامن طریقے سے ہوتا ہے۔

کیا انہیں معلوم نہیں کہ اگر دیہاتی علاقوں سے آئے ہوئے جمعیت کے مجاہدین ان شہری طلبہ و طالبات کو اخلاقیات اور تمیز تہذیب نہیں سکھائیں گے تو اور کون سکھائے گا؟ کیا یہ استاد کا کام ہے؟ کیا انہیں نہیں معلوم کے اگر جمعیت نہ ہو تو یونیورسٹی میں کتنے معاشقے چلیں گے اور تعجب نہیں کہ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ان معاشقوں کا نتیجہ شادیوں کی صورت میں نکلے؟ کیا انہیں علم نہیں ہے کہ جمعیت ہی یہ ممکن بناتی ہے کہ طلبہ تمیز سے رہیں اور طالبات ایسا لباس نہ پہنیں جس کی وجہ سے جمعیت کے صالح نوجوانوں کی طبعیت میں اضطراب اور ہیجان پیدا ہو اور ان طالبات کی سالمیت وغیرہ خطرے میں پڑے۔

کیا کیمپس کی پولیسنگ یونیورسٹی انتظامیہ کے کمزور کاندھوں پر ڈال دی جائے جو غنڈہ گرد عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قاصر رہتی ہے؟ یونیورسٹی کی انتظامیہ تو اتنی نا اہل ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر کے اعزاز میں ایک کانفرنس تک خود سے نہیں کروا سکتی اور اس کے لئے اسے اسلامی جمعیت طلبہ سے درخواست کرنا پڑتی ہے کہ اس کا بندوبست کر دو۔

ہماری تمام طالبات سے درخواست ہے کہ یونیورسٹی میں ظم و نسق قائم رکھنے کی خاطر کی جانے والی معمولی سی مار پیٹ کو غنڈہ گردی کا نام مت دیں اور اس کے خلاف احتجاج مت کریں۔ جو ویڈیو ہم نے دیکھی ہے اس میں تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ کسی ہتھیار کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ نہایت پیار اور احترام سے بلوچ طلبہ کے سر اور منہ وغیرہ پر ہاتھ پھیرا گیا ہے۔ اب جلدی میں کسی پیار سے پیش آنے والے طالب علم کو یہ خیال نہیں رہا کہ اس کا ہاتھ اس وقت محبت کی شدت کی وجہ سے مکے کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس پر نوکیلا آہنی پنجہ چڑھا ہوا ہے تو اسے غنڈہ گردی تو نہیں کہا جا سکتا۔ غنڈہ گردی تو یہ ہوتی اگر یہ طلبہ اپنے نیفوں میں اڑسے ہوئے پستول نکال کر انہیں استعمال کرتے، ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ہم ان طالبات کو یقین دلاتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی میں کوئی غنڈہ گردی نہیں ہو رہی ہے اور وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے دم قدم سے طالبات مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ نیز ہم احتجاج میں شرکت کرنے والی بے پردہ طالبات کو نصیحت کرتے ہیں کہ جمعیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے احتیاطاً نقاب کر لیا کریں ورنہ پہچانی جائیں گی اور کوئی بدطینت طالب علم ان سے غنڈہ گردی کر کے معصوم و صالح جمعیت کا نام لگا دے گا۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے، غنڈہ گردی کوئی اور کرتا ہے اور میڈیا پر نام جمعیت کا بدنام ہو جاتا ہے۔

طالبات کو علم نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ان کی بہتری کے لئے کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں ایسے مخلص لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنا اصل مقصد، اپنی تعلیم، اپنی ملازمت، اپنی اخلاقیات چھوڑ کر اور اپنی ذات کو نظرانداز کر کے اپنا وقت دوسروں کی اصلاح میں صرف کریں، ان کی قدر کی جانی چاہیے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ طالبات کل اس سے بھی بڑا جلوس نکالیں اور اس میں بینر اٹھائیں ”شکریہ اسلامی جمعیت طلبہ، اگر تم نہ ہوتے تو یہ یونیورسٹی کتنی مختلف جگہ ہوتی، یہ تم ہی ہو جس کی وجہ سے یونیورسٹی کا ماحول ایسا ہے کہ کوئٹہ سے خیبر تک پنجاب یونیورسٹی کا بول بالا ہو رہا ہے“۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar