’اقرا‘ و ’قلم‘ کی اصطلاحات کے تقدس سے، پاجامے میں ناڑا ڈالنے کے استعارے تک


’اقرا‘ والی پہلی وحی سے دینِ اسلام کی تعلیمات کا آغاز تسلیم کیا۔ لفظ ’اقرا‘ کا ترجمہ اہلِ زبان کے بقول ’پڑھ‘ لیا جاتا ہے۔ عام انسانوں کے حوالے سے اگر بات کریں تو اک سوال اُٹھتا ہے کہ ہمارے حواسِ خمسہ کے استمعال و افعال کی کچھ حدود ہیں جن کے دا ئرہ کار سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً کان کی استعداد کی حد یہ ہے کہ آواز نہ تو اک حد سے کم ہو کہ وہ کان کے پردے پر عمل ہی نہ کر سکے اور نہ ہی اتنی تیز آواز ہو کہ کان کا پردہ پھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں آواز نہی سنی جا سکتی۔

آنکھ کے حوالے سے ضروری ہے کہ دیکھی جانے والی چیز نہ تو بہت چھوٹی ہو اور نہ ہی بہت بڑی ہو، نیز نہ ہی بہت نزدیک ہو نہ ہی بہت دور ہو، ان عوامل اور شرائط کے پورا ہونے کی صورت میں ہی ادراک یا دیکھنے کا عمل ہو سکتا ہے ورنہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پڑھنے کے عمل کے لئے بھی کچھ شرائط کا پورا ہونا لازمی امر ہے مثلاً زبان بطور آلہ صوت ٹھیک ہو، زبان کٹی ہوئی نہ ہو۔ گلے کی رگیں جو کہ آواز پیدا کرتی ہیں وہ ٹھیک ہوں۔ نیز جو آواز پیدا کرنی ہے وہ سنی بھی گئی ہو۔ گونگے افراد کی بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جو کہ محض بہرے تھے مگر چونکہ کوئی آواز سنی ہی نہ تھی اس لئے کوئی آواز پیدا بھی نہ کر سکے اور بہرے ہونے کے ساتھ ساتھ گونگے بھی ہو گئے۔

تو لفظ ’اقرا‘ یعنی ’پڑھ‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو آواز پیدا کرنے کی مندرجہ بالا شرائط کو پورا کرتے ہیں ورنہ وہ پڑھ نہیں سکتے۔ تو کیا یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ جو لوگ طبی طور پر ٹھیک ہیں کیا یہ وحی ان کے لئے ہی ہے۔ تو ان افراد کا کیا قصور ہے جو طبی طور پر معذور ہیں۔ آواز کے پیدا نہ کر سکنے اور زبان سے محروم ہونے کی صورت میں کیا اللہ تعالیٰ ان کو علم سے محروم رکھے گا یا ان افراد پر اس لفظ ’اقرا‘ یعنی ’پڑھ‘ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اللہ تو تمام افراد کا اللہ ہے وہ کسی کو کیسے بغیر علم و ہدایت کے چھوڑ سکتا ہے۔ تو لفظ ’پڑھ‘ سے وسیع تر معنوں میں مراد سیکھنا بھی لیا جا سکتا ہے۔ (اگر اہل زبان اجازت دیں تو)۔ ’پڑھ‘ کا مطلب بھی سیکھنا ہو سکتا ہے کیونکہ پڑھا بھی تو سیکھنے کے لئے ہی جاتا ہے۔

کسی بھی چیز یا عمل کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ داخلیت اور خارجیت۔ داخلیت سے مراد کسی شے کا حاصل کرنا ( یعنی ان پُٹ ) ۔ جبکہ خارجیت سے مراد حاصل شدہ شے کی دوسروں کو ترسیل (یعنی آوٹ پُٹ) ۔ ’اقرا‘ پڑھنے اور سیکھنے کا عمل ہے یعنی علم کی داخلیت کا پہلو، (انٹرنلائزیشن آف نالج)۔ کوئی بھی عمل اس صورت میں بے فائدہ ہو گا جب تک اس عمل میں دونوں عوامل کار فرما نہ ہوں۔ محض داخلیت ہو تو آخر اس کی بھی حد ہے نیز اگر داخلیت نہ ہو تو خارجیت کا تصور بے معنی قرار پائے گا۔

اسلام نے علم کے داخلی اور خارجی پہلوؤں کو دو اصطلاحات کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ اصطلاح اول ’اقرا‘ یعنی علم کی داخلیت کا پہلو، (ان پُٹ یا انٹرنلائزیشن آف نالج)۔ اصطلاحِ دوم ’بالقلم‘ قلم کے ساتھ یعنی علم کی دوسروں کو ترسیل (آوٹ پُٹ یعنی اکسٹر نلا ئیزیشن آف نالج)۔ اسلام نے علم کو کسی کی ذاتی میراث قرار نہی دیا۔ علم کا حصول ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا۔ ثابت ہوا کہ علم، صرف حصول علم تک محدود نہیں ہے، اگلی نسل اور آنے والے افراد کو علم کی ترسیل بھی فرض ہے۔ یہ ترسیل محض صحت مند افراد تک محدود نہیں بلکہ ہر عمر اور ہر قسم کے فرد کے لئے ہے۔ حصولِ علم بھی تب ہی ممکن ہے جب علم سکھانے والا موجود ہو۔ اور سکھانے والے سے سیکھنے والے کا تصور بھی منسلک ہے۔

حضرت محمد ﷺ سے وحی کی ابتدا ’اقرا‘ سے ہوئی۔ قرآن نے کہا کہ ’علم سکھایا، قلم کے ذریعے‘ ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا ’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘ اور پھر پوچھا کہ ’کیا میں (ﷺ) نے خدا کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔ تو سب نے کہا، ہاں۔‘

اب سوال یہ ہے کہ ایسی علمی میراث، ذمہ داری، نصب العین کی موجودگی میں بھی مسلمان صدیوں سے علمی میدان میں پیچھے کیوں ہیں؟ کیوں کر مغرب کے سلیبس، ان کے طریق ہائے تعلیم، ان کے نصب العین، ان کے لباس، ان کے طے کردہ میعار اور مقاصد، ان کے ادارے، ان سب نے ہماری شناخت ہم سے چھین لی؟ ہماری شناخت دراصل ہماری بنیاد میں ہے، اغیار کی پیروی میں نہیں۔ ہماری موجودہ علمیت اور صدیوں پر محیط بے ثمر و نام نہاد علمی تحقیقات نے دنیا کو کیا دیا ہے۔

ایک بال پوائنٹ پین سے لے کر جدید ٹیکنالوجی تک کی انسانی ایجادات میں مسلمانوں کے کردار کی نسبت نکال لیجیے۔ تفکر و تدبر پر قرآن کی آیات کا جائزہ لیجیے اور فکر و فلسفہ میں مسلمانوں کا حصہ تلاش کر لیجیے (چند ایک اگر تفکر و فلسفہ سے منسلک ہیں تو وہ محض، سائنس و فلسفہ یا قرآن و سائنس میں مطابقت کو مرکزِ فکر بنائے بیٹھے ہیں )۔ نئی اور تخلیقی فکر کے سوتے مسلمانوں میں ہی کیوں خشک ہو گئے ہیں۔ حصول علم کے لیے بھی ہم مغرب کے محتاج کیوں ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے ہمیں اپنی بنیادوں کا جائزہ لینا ہو گا۔

ہماری بنیاد، ’اقرا‘ اور ’قلم‘ ہیں اور ان دونوں کے درمیانی کڑی ہے ’تدبر‘ اور ’تفکر‘ ۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ ’اقرا‘ کی بنیاد مغربی تعلیم ہے، ’تدبر‘ پر پہرے ہیں اور ’تفکر‘ پر تکفیر کا الزام ہے، ان حالات میں قلم سے رابطہ ہو نہیں سکتا۔ ایسے میں اگر کچھ سوچ کی جھلک کسی میں نظر آ جائے یا بصیرت کی کوئی چنگاری پیدا ہو جائے تو اس پر، اُوپر کی پالیسی، باس کی ناراضگی، ٹرانسفر کی دھمکی، نافرمانی کے الزامات کا ٹھنڈا برفیلا پانی ڈال کر ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔

ایسی صورتِ حال میں بھی، جن افراد میں کوئی چنگاری تفکر کی ہے تو وہ کیا کریں۔ وہ اب پاجاموں میں ناڑا ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ پاجامہ ایک استعارہ ہے، ستر پوشی کا۔ ستر پوشی ذریعہ ہے عزت بچانے کا۔ ستر پوشی کا سلسہ شروع ہوا بابا آدم و اماں حوا سے۔ ستر پوشی بقولِ غالب، بے شک ’چار گرہ کپڑے کی قسمت‘ تک ہی محدود ہو جائے پر ستر پوشی ہمارے سماج کی روایت ہے۔

جہاں تک اہلِ تفکر کی بات ہے تو ان کے لئے اپنے تفکر اور عزت میں سے کسی ایک کو بچانے کا موقعہ دیا جائے تو مجبوراً تفکر اور قلم چھوڑ کر عزت بچانا اور پاجامے کا ناڑا سنبھالنا ہی غنیمت سمجھیں گے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن وہی تفکر پھر استعمال کیجیئے کہ ایسی نوبت ہی کیوں آئے۔ اک دانا نے کہاوت بیان کی ہے کہ جنگل میں لومڑی تیزی سے بھاگی جا رہی تھی، کسی جانور نے پوچھا، بی لومڑی کہاں بھا گی جا رہی ہو۔ لومڑی نے جواب دیا کہ جنگل میں اونٹ پکڑنے والے آئے ہیں تو ان سے بچ کے بھاگ رہی ہوں۔ جانور نے کہا مگر تم تو اونٹ نہیں ہو پھر کیوں بھاگ رہی ہو۔ لومڑی نے جواب دیا، جب وہ پکڑ ہی لیں گے تو کون سنے گا کہ میں اونٹ نہیں بلکہ لومڑی ہوں۔

صاحبانِ فکر و تدبر اور اصحابِ اہل درد و احساس، علمی ستر پوشی پر بھی توجہ دیجیئے۔ صدیوں سے مسلمان کچھ نہی کر رہے اور کام چل رہا ہے تو آپ بھی کوئی تارے نہیں توڑ کر لا سکتے، اگر لے بھی آیئں گے تو وہ تاروں کی کرنسی یہاں نہیں چلتی۔ عزت بچایئے اپنے پاجامے میں ناڑا ڈالتے نکالتے رہیئے اور اس کے لئے قلم کا استعمال کیجیئے، قلم کے استعمال نہ ہونے کی فرسٹریشن کم ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).