امُہ مانگے مور


بچپن میں ہی ہمیں علامہ اقبال کے اس شعر کا رٹا لگوا دیا گیا تھا جس میں انھوں نے اپنا دوسرا خواب بیان کیا تھا۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

قائدِ اعظم کو اللہ تعالیٰ نے مہلت نہ دی اور وہ خواب نمبر 1 یعنی پاکستان کی ہی تعبیر دیکھ پائے۔ باقی ہمارے کسی رہنما کو علامہ اقبال کا دوسرا خواب سمجھ ہی نہیں آیا۔ ایوب، ضیا، مشرف امریکہ کی چاکری کرتے رہے۔ بھٹو نے ایک دفعہ سارے مسلمان بادشاہوں کو لاہور کی بادشاہی مسجد میں اکٹھا کیا لیکن خود بھٹو کا اور بادشاہی مسجد میں ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے زیادہ تر رہنماؤں کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ اس کے بعد امت تتر بتر ہو گئی۔

جس حرم کی پاسبانی ہم نے کرنی تھی اس کے پاسبانوں نے امریکہ اور یورپ سے ہر سال کھربوں کا اسلحہ خریدنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ہمسائے میں بیٹھے غریب یمنی امتیوں پر آزمانا شروع کر دیا۔

اس سارے قصے میں امت امُہ کب بنی ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔ لیکن اس امُہ کے تین بڑے یعنی مہاتر محمد، اردگان اور عمران خان سر جوڑ کر بیٹھے یہ سوچنے کے لیے کہ امُہ کا مسئلہ کیا ہے۔ امُہ چاہتی کیا ہے۔ جواب آیا کہ ایک ٹی وی چینل۔ چونکہ دنیا امُہ کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ مسلمانوں کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں ، کیونکہ اسلام سے نفرت ایک وبا بنتی جا رہی اس لیے اس کا تدارک کرنے کے لیے کیا کیا جائے۔ ایک ٹی وی چینل کھولا جائے تاکہ دنیا کو اسلام کا اصلی چہرہ دکھایا جائے۔ سوچا تو یہ بھی جا سکتا ہے کہ اپنے کرتوت وغیرہ ٹھیک کر کے کوشش کی جائے۔ اگر وہ تھوڑا مشکل لگتا ہے تو کم از کم ایک مشترکہ بیان یہ ہی دے دیا جائے کہ حرم شریف پر ہماری جان بھی قربان ہے لیکن اگر اس حرم کا پاسبان شہزادہ ایک صحافی کو استنبول کے سفارتخانے میں بلوا کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کٹوا کر لاش ہی غائب کر دے تو اس سے اسلام کی کوئی نیک نامی ہوئی۔

عمران خان
پاکستان، ترکی اور ملایشیا مل کر ایک ٹی وی چینل بنانا چاہتے ہیں کہ دنیا میں اسلاموفوبیا کا مقابلہ کیا جا سکے

لیکن اگر امُہ کے تین بڑوں نے فیصلہ کیا ہے تو چینل تو بن کر رہے گا۔ اس پر ہمارا مثبت امیج بنانے کے لیے خبریں پتہ نہیں کس طرح کی چلیں گی۔ کیا یمن کے بے یارومددگار امتی ’اسلام امن کا دین ہے‘ قسم کا پیغام دیں گے۔ ترکی کی جیلوں میں قید سینکڑوں صحافیوں اور ہزاروں سیاسی کارکنوں سے پوچھا جائے گا کہ نیل کے ساحل چلو گے یا تمہیں کاشغر میں سیاسی پناہ دلوائی جائے۔ کیا پاکستان سے جان بچا کر بھاگنے والے ہزارے جو اب ملائشیا میں میں پناہ کی تلاش میں ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ ملائشیا کے امتیوں کی میزبانی کا مزہ آ رہا ہے؟ کم از کم یہ تو دکھایا ہی جا سکے گا کہ ڈی ایچ اے کوئٹہ امت کی تاریخ میں ایک تاریخ ساز واقعہ ہے اور اس کے اشتہارات اور نقشے دیکھ کر کسی کو کچھ شک ہو سکتا ہے کہ امت کا مستقبل تابناک ہے۔

ملائشیا کا مجھے زیادہ پتہ نہیں لیکن پاکستان اور ترکی میں بہت سے صحافی بے روز گار ہیں بلکہ ترکی میں تو بے روزگار صحافیوں کے طعام و قیام کا بندوبست جیلوں ہی میں کر دیا گیا ہے۔ (جن پاکستانی صحافیوں کا ہیرو اردگان ہے انھیں یاد کرانا پڑتا ہے کہ آپ جیسے ہزاروں ہیرو صحافی ترکی کی جیلوں میں ہیں اور جو وہاں کے جنگ، جیو، ڈان، نوائے وقت تھے وہ وفات فرما چکے ہیں)۔

تو امُہ کے نئے چینل کے لیے صحافی تو ٹکے ٹوکری مل جائیں گے لیکن چینل کو کامیاب بنانے کے لیے جو وژن چاہیئے وہ صرف اور صرف سر غفور کے پاس ہے۔ میں ان کا نام صرف اس لیے تجویز نہیں کر رہا کہ وہ پاکستانی ہیں بلکہ اس لیے کہ اپنے کام سے انکی لگن اور مہارت بے مثال ہے۔ ویسے بھی امُہ کا سافٹ امیج بنانے کے لیے سر غفور کے سوفٹ ٹچ کی ضرورت ہے۔ ترکی میں جو صحافی حکومت کو پسند نہیں آتا اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے، سر غفور کسی صحافی سے نظریں پھیر لیں تو وہ خود ہی گھر جا کر بیٹھ جاتا ہے اور یو ٹیوب چینل کھولنے کے منصوبے بنانے لگتا ہے۔

ویسے جتنے چینل سر ایک وقت میں بند کر دیتے ہیں مہاتر اور اردگان کو اس کے لیے ایک چھوٹی موٹی فوج درکار ہوتی ہے۔

پاک فوج پاکستان کا فخر ہے اور پاک فوج کا فخر کون ہے۔ میں بار بار ان کا نام لے کر شرمندہ نہیں کرنا چاہتا لیکن یقین کریں کہ وقت آ گیا ہے کہ ان کی خدمات امُہ کے حوالے کی جائیں۔ انھیں 24 گھنٹے والا نیوز سائیکل سنبھالنے کے ساتھ ساتھ شو بزنس، میوزک، فلم اور ڈرامہ پروڈکشن کا بھی وسیع تجربہ ہے۔ انکی خدمات اگر امُہ کو مل جائیں تو حرم کی پاسبانی بھی ہوتی رہے گی اور پارٹی بھی چلتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).