کچھ عمران خان کی تقریر کے بارے میں۔ ۔ ۔


وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کئی حوالوں سے قابل تعریف تھی۔ اس میں جوش تھا، دردمندی تھی، خلوص تھا، سوز و گداز تھا، دھوم دھام تھی، دھمکی تھی، دھونس تھی، خود اعتمادی تھی، رعب و دبدبہ تھا، طنطنہ تھا، رنجش تھی وغیرہ۔ مسئلہ کشمیر کو بھی اٹھایا گیا مگر تاریخی شعور کے بغیر۔ امت مسلمہ کے جذبات کو دیکھتے ہوئے مذہب اور امت مسلمہ کو ایک بار پھر بیساکھی بنایا گیا۔ لگتا ہے کہ کپتان میں ٹیپو سلطان، حیدر علی، عبدالحمید ثانی، جمال الدین افغانی، علامہ اقبال، ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کی روحیں حلول کر گئی ہیں۔

جو لوگ جنرل اسمبلی میں عمران کے کلمہ طیبہ پڑھنے اور بھارت کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دینے کے اسلوب کو یواین کی تاریخ کا منفرد واقعہ قرار دے رہے ہیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بہت سے مسلم لیڈروں نے یو این میں اس تناظر میں اس سے بھی زیادہ جوشیلی، جامع اور جذباتی تقریریں کر رکھی ہیں۔ انیس سو اکہتر کے سانحے کے بعد بھٹو کی جذباتی اور جوش بھری تقریر کپتان کی تقریر سے کہیں زیادہ خوبصورت، مدلل اور حقیقت کے قریب تھی۔ مرد مومن مرد حق تو یو این میں پی ٹی وی کی کرامت کے ذریعے تلاوت قرآن پاک سے اجلاس کا آغاز کروا چکے ہیں۔

پاکستان میں مخصوص ذہنیت کے لوگ کپتان کی تقریر پر تعریف کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ شاید وہ اس طرح کپتان کے اس متنازعہ انٹرویو کا خطرناک تاثر زائل کرناچاہتے ہیں جس میں انہوں نے طالبان اور القاعدہ کی تنظیم و تشکیل کا سہرا پاک آرمی کے سر سجایا تھا مگر وہ تیر کمان سے نکل چکا ہے اور اس انٹرویو کی بنیاد پر انڈیا سمیت دنیا بھر میں ہماری مٹی پلید کی جارہی ہے۔ کیا یہ جذباتی تقریر یواین کی انسانی حقوق کی کونسل میں ہماری اس تاریخی ہزیمت کا مداوا بن سکتی ہے جس میں ہم کل سینتالیس میں سے پندرہ ممبر ممالک کی حمایت بھی نہیں حاصل کرسکے؟

کاش پاکستانی وزیر اعظم مذہب کا سہارا لیے بغیر، امت مسلمہ کا رونا روئے بغیر اور اسلامی بلاک کے قیام کی درپردہ دھمکی دیے بغیر مسئلہ کشمیر کو درست تاریخی تناظر میں اٹھاتے تو آج ساری دنیا میں ان کی پذیرائی ہوتی۔ ہم یقین کیوں نہیں کرتے کہ کشمیر اسلام اور کفر کا نہیں انسانیت کا مسئلہ ہے؟ اگر آپ مسئلہ کشمیر کو کفر و اسلام کا مسئلہ بنا کر پیش کریں گے تو ہندوستان میں بسنے والے تیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کو کہاں چھوڑیں گے؟

یہی نہیں آپ تو اب تک یہ بھی نہیں طے کرسکے کہ مسئلہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کے طور پر اٹھانا ہے، دو طرفہ مسئلہ بنا کر جدوجہد کرنا ہے؟ انسانی حقوق کی پائمالی کی بنیاد پر اٹھانا ہے یا کشمیریوں کے لیے حق خود ارادی کا مطالبہ کرنا ہے؟

مذہب اور وطنیت کا چورن اور مظلومیت کا منجن پاکستان میں تو بیچا جاسکتا ہے مگر یواین جیسے فورم پر پردنیا ٹھوس اور دو ٹوک مٶقف مانگتی ہے۔ حقیقت بیانی کا تقاضا کرتی ہے۔ سچ بولنے کی امید رکھتی ہے۔ آپ کشمیر اور اہل کشمیر کے وکیل بن کے گئے ہیں تو پہلے مسئلہ کشمیر کو اچھی طرح سٹڈی تو کرلیں۔ اہل کشمیر کو آزادی کے نام پر خون ریزی اور قتل و غارت گری پر اکسا کر، مسلح گروہوں کے لوگوں کو حریت پسند قرار دے کر آپ کشمیر کے مقدمے کو مزید الجھا اور آزادی کی منزل کو مزید دور کر رہے ہیں۔

مسلم امہ کے اتحاد کا خواب دیکھتے دیکھتے بھٹو، ضیا، شاہ فیصل اور قذافی اللہ کو پیارے ہو گئے مگر یہ خواب کبھی شرمندہٕ تعبیر ہوسکا ہے نہ کبھی ہو گا۔ کیوں سادہ لوح اور بھولے بھالے پاکستانیوں اور کشمیریوں کو اتحاد امہ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ان کی منزل کھوٹی کررہے ہیں؟ جذباتی تقریروں کے بجائے قوم کو یہ بتائیں کہ پاک فوج پر اتنا گھناٶنا الزام کیوں لگایا ہے اور مسئلہ کشمیر پر انسانی حقوق کی کونسل میں پندرہ ممبر ممالک کی حمایت بھی کیوں حاصل نہ کر سکے؟

بے عمل دل ہو تو جذبات سے کیا ہوتا ہے
دھرتی بنجر ہو تو برسات سے کیا ہوتا ہے
عمل لازم ہے تکمیل ِ تمنا کے لیے
ورنہ رنگین خیالات سے کیا ہوتا ہے

حرف آخر یہ کہ ملت اسلامیہ میں اب خیر سے دو عدد امیر المٶمنین بننے کے دعویدار ایک دوسرے کے مقابل آچکے ہیں۔ مسلم امہ سے تو ایک اردوان نہیں سنبھالا جارہا تھا، اب کپتان کو کیسے قابو کریں گے؟ میان ایک اور تلواریں دو۔ اللہ خیر کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).