”تبدیلی آئی رہے“ گنگنانا شروع کر دوں؟


گئے زمانوں میں دو قسم کی ”واپسیاں“ بہت مشہور ہوا کرتی تھیں بلکہ المشہور ہوا کرتی تھیں۔ ایک ٹارزن کی واپسی اور دوسری عذرا کی واپسی۔ لون رینجر کے علاوہ ٹارزن ہی پسندیدہ ہیرو ہوا کرتا تھا اور ہم اس کی فلمیں اکثر چوری چھپے دیکھا کرتے تھے۔ ٹارزن کا کردار ادا کرنے والے اداکار اور اس کی گرل فرینڈ جین کا کردار نبھانے والی خواتین بدلتی رہتی تھیں۔ اولین ٹارزن جانی وزملر نام کا ایک اداکار تھا جو ذاتی زندگی میں ایک سوئمنگ چمپئن ہوا کرتا تھا۔

ٹارزن کی ہر نئی فلم کا نام تو کچھ اورہوتا تھا یعنی ”ٹارزن اور گوریلوں کا بادشاہ“ یا ”ٹارزن اور وحشی شیروں کی آندھی“ ۔ وغیرہ لیکن عوام الناس کی سہولت کے لئے ایسی نئی فلموں کو ”ٹارزن کی واپسی“ کے نام سے ہی مشتہر کیا جاتا تھا۔ دوسری واپسی عذرا کی ہوا کرتی تھی جس کا ماخذ رائڈر ہیگرڈ کے مشہور زمانہ مہماتی ناول ”شی“ تھا۔ اوائل جوانی میں یہ ناول راتوں کی نیندیں اڑا دیتا تھا۔ یعنی ایک نوجوان طالب علم کو کسی پرانے صندوق میں گئے زمانوں کے کچھ نقشے دستیاب ہو جاتے ہیں جن کی مدد سے وہ افریقہ کے قلب سیاہ میں دنیا بھر سے منقطع ہو چکے ایک ایسے قبیلے میں جا پہنچتا ہے جس کی ملکہ دنیا کی حسین ترین عورت ہے اور اس کے دائمی حسن کا راز یہ ہے کہ وہ ایک خاصی مدت کے بعد ایک قدیم جادوئی آگ میں جل کر دوبارہ نوخیز ہو جاتی ہے۔

یہ ”شی“ ہے جس کا نام ہیگرڈ نے عائشہ رکھا۔ اس ناول کی بے مثال شہرت کی وجہ سے ہیگرڈ نے ایک اور ناول ”ریٹرن آف شی“ تخلیق کیا اور یہ بھی دنیا بھر میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ ان دونوں ناولوں کے اردو میں ترجمے ہوئے۔ البتہ بوجوہ ان کے مرکزی کردار کا نام بدل کر عذرا کر دیا گیا۔ ”ریٹرن آف شی“ ”عذرا کی واپسی کے نام سے شائع ہوا اور یہ نام عوام الناس کی نفسیات میں کسی خاص سطح پر اثر انداز ہو کر نہ صرف مقبول ہو گیا بلکہ روز مرہ کے محاورے میں شامل ہو گیا اور یہ کسی بھی صورت حال پر منطبق کیا جا سکتا تھا۔

یعنی بالا گجر اگر دس برس جیل کاٹ کر باہر آیا ہے تو عذرا کی واپسی۔ کوئی صاحب ایک مدت سے گمشدہ گھر واپس آ جاتے ہیں تو عذرا کی واپسی۔ یہاں تک کہ کوئی بڑا ادیب ایک عرصے تک غائب رہنے کے بعد کسی ادبی پرچے میں اپنی نئی تخلیق کے ساتھ نمودار ہوتا ہے تو عذرا کی واپسی۔ یہ طویل تمہید میں نے صرف اس لئے باندھی ہے تاکہ میں عرض کر سکوں کہ امریکہ میکسیکو اور کیوبا کے سفر کے بعد ڈھائی ماہ کی مسافتوں کے بعد عذرا کی واپسی ہو گئی ہے یعنی میں اپنے پاکستان واپس پہنچ گیا ہوں۔

پنجابی زبان میں اس واپسی کے حوالے سے ایک نہایت بلیغ مثال موجود ہے جو میں تو استعمال نہیں کر سکتا البتہ حاسدین نہایت پرمسرت ہو کر اعلان کر سکتے ہیں کہ ”جتھوں دی۔ ۔ ۔ اوتھے آ کھلوتی۔ اب آپ“ کھلوتی۔ کا ہم وزن متبادل خود تلاش کر لیجیے۔ اتنا عرصہ وطن سے دور رہنے کے بعد واپس آیا ہوں تو کیا مجھے ملکی صورت حال وغیرہ میں کچھ فرق نظر آیا ہے؟ حکومت، جمہوریت میڈیا وغیرہ میں کسی تبدیلی کا احساس ہوا ہے۔

”تبدیلی آئی رہے“ گنگنانا شروع کر دوں؟ میں اپنی داستان گوئی کی صفت سے مجبور ہوں۔ اس لئے ایک قصہ بیان کروں گا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں پولر ریجن کے علاوہ سب سے زیادہ برف پاکستان میں ہے۔ اسی لئے میں اسے بنیادی طور پر ایک ”برفانی سلطنت“ کہتا ہوں۔ ہمارے شمال میں بیافو اور ہپر نام کے دو گلیشئر ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ان کی مشترکہ لمبائی ایک سو تیس کلو میٹر پر محیط ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور طویل برفانی راستہ ہے جسے میں نے اپنی کوہ نورد ٹیم کے ساتھ آج سے تقریباً پچیس برس پیشتر چودہ روز کی خطرناک مسافت کے بعد عبور کیا تھا۔

اس کے اختتام پر ہم شیپر کے گاؤں سے جیپ پر سوار ہنزہ کی آبادیوں میں جا اترے۔ ہم نے پچھلے تقریباً دو ہفتوں سے اپنے ساتھیوں کے سوا کسی ذی روح کی شکل نہ دیکھی تھی بلکہ اپنی شکل بھی نہ دیکھی تھی کہ پہاڑوں میں آئینے نہیں ہوتے۔ اگر دیکھ لیتے تو اپنے آپ کو پہچان نہ سکتے کہ ہم بھی قدرے وحشی سے ہو چکے تھے۔ کریم آباد کے ایک ہوٹل میں فروکش ہوئے تو نہ صرف بستر عجیب سے لگے بلکہ باتھ رومز کی موجودگی سمجھ میں نہ آئی کہ ہم اس دوران ”باہر“ بیٹھتے آئے تھے اور یخ بستہ پانیوں کے استعمال کے عادی ہو چکے تھے۔

ظاہر ہے اس دوران ہمیں کچھ خبر نہ تھی کہ باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ نہ ٹیلی ویژن نہ اخبار اور نہ ہی کوئی خبریں پہنچانے والا ہرکارہ۔ اگر اس دوران ایٹمی جنگ بھی شروع ہو جاتی تو ہم بے خبر رہتے۔ سلمان چونکہ آسٹریلیا کا باشندہ ہو چکا تھا اس لئے اسے بہت تشویش تھی کہ جانے ہماری گمشدگی کے دوران دنیا میں اور پاکستان میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ اس لئے ان سنو لیک سے واپسی پر اس نے سامان بعد میں کھولا اور ویٹر کو مخاطب کر کے کہا کہ فوری طور پر آج کا اخبار لے کر آؤ۔

ویٹر کچھ دیر بعد واپس آیا اور کہنے لگا صاحب اخبار فارغ نہیں ہے۔ سلمان نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ کیا مطلب اخبارفارغ نہیں ہے، تو ویٹر نے مؤدب ہوکر کہا کہ صاحب پورے ہوٹل میں ایک ہی اخبار آتا ہے جسے پہلے منیجر صاحب پڑھتے ہیں پھر کراچی کے ایک صاحب جو یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ لے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ غسل خانے میں اخبار نہ پڑھیں فارغ نہیں ہو سکتے اس لئے اخبار فارغ نہیں ہے۔ سلمان نے ناک بھوں چڑھائی اور ایک فارغ شدہ اخبار کو مزید فارغ کرنے سے گریزاں ہو کر ویٹر کو کچھ رقم دی کہ بازارسے ایک اور اخبار لے آؤ۔ ہنزہ میں ان دنوں اخبار کم کم دستیاب ہوتے تھے اس لئے ویٹر خاصی دیر کے بعد واپس آیا۔ (جاری ہے )
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar