میاں، بیوی اور کال گرل


”کون ہے یہ؟ “ اس کے جاتے ہی ماہین نے آنکھیں نکالیں۔
”بتایا تو ہے۔ “ محمود بولا۔

”مجھے بے وقوف سمجھتے ہو، سچ سچ بتاؤ۔ “ ماہین ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ یہ ایک کال گرل ہے۔ “ محمود نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ ماہین دو تین لمحے خاموش رہی پھر یک دم ہنس پڑی۔

”اچھا مذاق ہے۔ بہت خوشی ہوئی یہ سن کر لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ پروین اچھا خاصا ٹھیک کام کر لیتی تھی اورتم نے اسے نکال دیا۔ ہاں، اب سمجھ میں آیا۔ وہ تھی ادھیڑ عمر عورت اور یہ نوخیز لڑکی۔ تم نے سوچا ہو گا کہ کام کے ساتھ ساتھ آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ “ ماہین نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

”نہیں یہ بات نہیں ہے۔ رابی ایک کال گرل ہے۔ “ محمود نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”تم نے کہا اور میں نے مان لیا۔ جانے دو، کسی اور کو بے وقوف بناؤ۔ “

محمود اس کی بات سن کر کندھے جھٹک کر رہ گیا۔ پہلے وہ ہر ملنے والی لڑکی پر شک کرتی تھی۔ آج جب وہ خود صاف صاف بتا رہا تھا تو وہ مان نہیں رہی تھی۔ اسی اثنا میں رابی چائے لے کر آ گئی۔
”یہ لو چکھ کر دیکھ لو کیسی بنی ہے۔ میں تو چائے پیتی نہیں اس لیے ٹھیک سے بنانی بھی نہیں آتی۔ “ رابی نے کہا۔

”یہ کیا بدتمیزی ہے۔ تم بات کیسے کر رہی ہو۔ پتہ نہیں محمود نے تمہیں رکھ کیسے لیا۔ “ ماہین اس کی بات سن کر تیز لہجے میں بولی۔
”اوہو کیوں ڈانٹ رہی ہو بے چاری یتیم لڑکی ہے۔ “

”اوہو تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ایسے بات کی جائے۔ “
”خیر چائے اچھی ہے۔ “ محمود نے سپ لیتے ہوئے کہا۔

”اچھا اب شام ہو گئی ہے۔ تم اب جا سکتی ہو۔ “ ماہین، رابی سے مخاطب تھی۔
”جی نہیں میں ابھی نہیں جا سکتی۔ “ رابی نے فوراً کہا۔

”کیا مطلب؟ کیوں نہیں جا سکتی؟ “ ماہین نے تند لہجے میں کہا۔
”وہ میں نے کہا تھا کہ گیسٹ روم میں رہ لو۔ یہ بے چاری کہاں آتی جاتی۔ “ محمود بولا۔

”تو گیسٹ روم کی بجائے بیڈ روم میں ہی ٹھہرا لیتے۔ گیسٹ روم تو دور پڑ جاتا۔ “ ماہین نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”بہت خوب! اب تم فارم میں آ رہی ہو۔ “ محمود بول اٹھا۔

”یہ تم کیا کھیل کھیل رہے ہو۔ میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ “ ماہین نے اب محمود کی طرف رخ کیا۔
”کوئی کھیل نہیں ہے۔ میں نے اسے کام کے لیے رکھا تھا مگر یہ نکمی ہے۔ لہٰذا میں اسے نکال رہا ہوں۔ رابی تم جا سکتی ہو۔ “ محمود بولا۔

”آپ نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟ میں نے پیسے لیے ہیں اور کام کیا نہیں۔ میرے بھی کچھ اصول ہیں محمود صاحب۔ میں ایسے نہیں جا سکتی۔ “
”اؤ کے تم پیسے واپس کر دو۔ “ محمود نے کہا۔

”واہ! جب آپ کا دل چاہے پیسے دے دیں اور جب نہ چاہے تو واپس لے لیں۔ کام ایسے نہیں چلتا۔ ایک بار پیسے دے دیے تو واپس نہیں ہوتے۔ “ رابی کا لہجہ بھی سخت تھا۔
”میں کہہ رہا ہوں، پیسے رکھ لو او جاؤ۔ “

”آپ کی مرضی ایسے نہیں چلے گی۔ میں کام کیے بغیر پیسے نہیں رکھتی۔ کیا سمجھے؟ “
”بد تمیز لڑکی! تم ابھی اور اسی وقت چلی جاؤ میرے گھر سے۔ “ ماہین نے غصے سے کہا۔

”سوری مجھے آپ نے نہیں محمود صاحب نے ہائر کیا ہے۔ میں آپ کی بات کیوں سنوں؟ “ رابی نے منہ بنایا۔
یک نہ شد دو شد۔ محمود کا دل چاہ رہا تھا کہ بال نوچ لے۔

”اچھا سنو! میرے پاس تمہارے لیے بہت اچھی آفر ہے۔ میں تم دونوں کا ویڈیو کلپ شوٹ کروں گی۔ وہ کلپ ایک سائٹ کو بیچ دیا جائے گا۔ تم محض ایک کلپ سے لاکھوں روپے کما سکتے ہو؟ “

ماہین کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں۔ شاید وہ پہلے ہی سب کچھ سمجھ رہی تھی مگر سمجھنا نہیں چاہتی تھی لیکن اب بات اس کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔ محمود کا دل احساسِ ندامت سے چور چور ہو رہا تھا۔ ایک کمزور لمحے نے اسے کس موڑ پر لا کھڑا کیا تھا۔ اس نے فوراً آگے بڑھ کر بیرونی دروازہ کھولا اور رابی کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ رابی نے چند سیکنڈ ان دونوں کو دیکھا پھر تیز تیز چلتی ہوئی باہر نکلتی چلی گئی۔

میاں، بیوی اور کال گرل (دوسرا حصہ)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3