میاں، بیوی اور کال گرل (دوسرا حصہ)۔


پہلا حصہ: میاں، بیوی اور کال گرل

”میں دروازہ بند کر کے آتا ہوں۔ “ محمود تیزی سے بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ ماہین اپنی جگہ پر کھڑی ہونٹ چبا رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس صورتِ حال کو کیسے ہینڈل کرے۔ وہ شادی کے پہلے دن سے ہی محمود کو دباؤ میں رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ بعض اوقات خواہ مخواہ اس پر شک کرتے ہوئے سخت ناراضی دکھاتی تھی۔ محمود کا انداز ہمیشہ سے معذرت خواہانہ ہی رہا تھا۔ وہ اس کے ناز نخرے بھی اٹھاتا تھا۔ اور اسے خوش رکھنے کی کوشش بھی کرتا تھا مگر شاید ماہین کا رویہ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ بگڑ گیا تھا۔ وگرنہ محمود ایسی حرکت نہ کرتا۔

وہ میکے کیا گئی محمود ایک کال گرل کو گھر لے آیا۔ غصہ تو بہت تھا مگر اس نے سوچا کہ مصلحت سے کام لینا چاہیے۔
محمود دروازہ بند کر کے واپس آیا تو ماہین نے بات شروع کی۔

”سنو تم نے کھانا کھایا ہے؟ “
”کہاں کھایا؟ بہت بھوک لگی ہے؟ “
”کھاتے کیسے؟ بیوی گھر میں ہوتی تو کھانے کا پوچھتی۔ اچھا میں ابھی کھانا بناتی ہوں۔ “ ماہین کچن میں چلی گئی۔

محمود بہت حیران تھا۔ اس کا تو خیال تھا کہ ماہین ابھی گھر سر پر اٹھا لے گی مگر اس نے تو ایک سوال تک نہیں کیا تھا۔ یہ ردِ عمل حیران کن ہونے کے ساتھ خطرناک بھی تھا۔ نہ جانے اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔ اس نے ٹی وی آن کیا اور سکرین پر نظریں جما کر سوچنے لگا۔ اس نے رابی کو بھیج تو دیا تھا مگر جاتے ہوئے اس کا فون نمبر لے لیا تھا۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر یہ وقت مناسب نہیں تھا۔ پھر وہ اٹھا اور کچن کی طرف بڑھا۔ ماہین کھانا بنا رہی تھی۔

”ماہین! سگریٹ ختم ہیں میں ابھی لے کر آتا ہوں۔ “
”اؤ کے! مگر جلدی آنا بیس منٹ میں کھانا تیار ہو گا۔ “ ماہین نے نارمل لہجے میں کہا۔

محمود باہر نکل آیا۔ فلیٹ سے نکل کر وہ سڑک پر آ گیا۔ پھر اس نے رابی کا نمبر ملایا۔
”ہیلو۔ میں محمود بول رہا ہوں۔ مجھے پہچانا؟ “ اس نے کال ملتے ہی کہا۔
”ہاں ہاں پہچان لیا ہے۔ میں تھوڑی دیر پہلے ہی تمہارے فلیٹ سے بے آبرو ہو کر نکلی ہوں۔ “ رابی کی جلی کٹی آواز سنائی دی۔

”دیکھو تمہارا شعری ذوق اپنی جگہ لیکن مجھے کانٹوں میں مت گھسیٹو۔ میں مانتا ہوں حالات ایسا رخ اختیار کر گئے کہ تمہیں یہاں سے عجلت میں نکلنا پڑا لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہمارا کنٹریکٹ ابھی ختم نہیں ہوا۔ فقط جگہ اور وقت میں تبدیلی آئی ہے۔ میں کل تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ چند ضروری باتیں کرنی ہیں۔ اس ملاقات کے پیسے الگ سے دوں گا۔ “

”ہوں، سوچا جا سکتا ہے۔ “ رابی کی آواز آئی۔
”ٹھیک ہے تم مجھے سوچ کر بتا دینا۔ “

فون بند کر کے وہ واپس آ گیا۔ ماہین کھانا بنا چکی تھی۔ کھانے کے دوران دونوں خاموش تھے۔ کھانے کے بعد ماہین نے برتن اٹھائے اور پھر وہ ٹی وی دیکھنے لگے۔ سب کچھ مشینی انداز میں چل رہا تھا۔ لگتا تھا وہ دونوں انسان نہیں دو روبوٹ ہوں۔ وہ سونے کے لیے لیٹے تو دونوں کسی گہری سوچ میں تھے پھر نہ جانے کب ان کی آنکھ لگ گئی۔

صبح معمول کے مطابق وہ ناشتہ کر رہے تھے کہ پروین آ گئی۔
”پروین پہلے برتن صاف کر لو، پھر میں تمہیں دھونے والے کپڑے نکال کر دیتی ہوں۔ “

”جی بیگم صاحبہ۔ “ پروین کچن میں چلی گئی۔
”تم تو کہتے تھے کہ پروین کو نکال دیا ہے پھر یہ کیسے آ گئی؟ “ ماہین نے محمود کو تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”اوہو تم سمجھی نہیں تھیں، اس نے جب کام ختم کر لیا تھا تو میں نے اسے گھر سے نکالا تھا، کام سے نہیں۔ “ محمود نے جلدی سے کہا۔
”اچھا اچھا۔ “ ماہین نے سر ہلایا۔

محمود آفس چلا گیا تو ماہین نے اپنی ایک دوست طوبیٰ کو فون ملایا۔ اسے مشورہ درکار تھا۔ طوبیٰ نے اس کی ساری باتیں سنیں پھر اپنی ایک شناسا ماہرِ نفسیات کا فون نمبر دیا۔ ماہین نے ڈاکٹر رفعت کو فون کیا اور ان سے ملاقات کا وقت مانگا۔
”آپ کس سلسلے میں ملنا چاہتی ہیں؟ “ ڈاکٹر رفعت نے پوچھا۔

”ڈاکٹر صاحبہ! میری شادی کو چھ ماہ ہوئے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ میں ذرا سی ناراض ہو کر چند دن کے لیے میکے گئی تو میرے میاں نے ایک کال گرل سے رابطہ کر لیا۔ میں کیا کروں کہ وہ میرے پاس لوٹ آئے اور کال گرل کا پیچھا بھی چھوڑ دے۔ مجھے شبہ ہے کہ وہ ابھی تک اس کے رابطے میں ہے۔ میں نے اس کا فون چیک کیا تھا اس میں سیکنڈ کپ کے نام سے ایک نمبر سیو تھا۔ میں نے وہاں فون کیا تو دوسری طرف سے کسی نے میری آواز سن کر فون کاٹ دیا تھا۔ “ ماہین نے تفصیل بتائی۔
”سیکنڈ کپ۔ ہو سکتا ہے وہ کسی کافی شاپ کا نمبر ہو۔ “ ڈاکٹر رفعت نے خیال ظاہر کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3