کیا قومی حکومت مسئلہ کا حل ہے؟


جس وقت وزیر عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ نیویارک میں کشمیر کا مقدمہ لڑنے اور بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں عوامی سطح پر ناراضگی بڑھ رہی ہے اور یہ قیاس آرائیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ عمران خان زیادہ عرصہ تک موجودہ طریقہ کار اور مشیروں وزیروں کے ساتھ برسر اقتدار نہیں رہ سکیں گے۔
ایک طرف یہ خبر گرم ہے کہ وزیر اعظم کی نیویارک سے واپسی پر کابینہ میں وسیع تبدیلیاں کی جائیں گی تاکہ نااہل اور حکومت کی شہرت خراب کرنے والے وزیروں و مشیروں سے نجات حاصل کی جائے۔ ایک تازہ دم کابینہ ملکی مسائل حل کرنے اور عوامی خواہشات کی تکمیل کا بیڑا اٹھائے گی۔ کابینہ میں بعض تبدیلیوں کی خبر اگر درست بھی ہو تو بھی اس قسم کے کسی اقدام سے ان مسائل کا حل تلاش کرنا ممکن نہیں ہے جو خاص طور سے ملکی معیشت کو درپیش ہیں۔ ان میں سر فہرست مہنگائی، سست رو پیداوار، بے روزگاری میں اضافہ اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی صورت حال ہے۔ ملکی مالی معاملات طے کرنے کے لئے مشیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بنک کے طور پر جن افراد کو تعینات کیا گیا ہے، ان کی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اس لئے کابینہ میں کوئی تبدیلی معاشی بحالی کے کسی ایسے منصوبہ کا آغاز کر نہیں کرسکے گی جس کی توقع عام آمدنی والا خاندان کرتا ہے اور جس کی بنیاد پر نئے پاکستان کے نعرے کو پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
عمران خان کے زیر قیادت کام کرنے والی کسی بھی کابینہ کو ان تصورات بلکہ اصطلاحات کو ہی استعمال کرنا پڑے گا جو اس وزیر اعظم کے سیاسی ایجنڈے کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ یعنی نیا پاکستان مدینہ ریاست کے اصولوں پر قائم ہوگا اور یہ قائد اعظم کے نظریات کو آگے بڑھائے گا۔ پاکستان میں عقیدہ کو سیاست میں استعمال کرنے کا طریقہ تو نیا نہیں ہے لیکن عمران خان جیسے پس منظر رکھنے والے شخص نے اسے جس طرح استعمال کیا ہے، اس سے سیاست میں ایک نئے مذہبی رجحان کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ یہ طریقہ کار دو حوالوں سے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
ایک یہ کہ سیاسی و معاشی فیصلے معروضی حالات اور ضرورتوں کی بنیاد پر کرنے کی بجائے انہیں مذہب کا رنگ دے کر مسائل کو مزید الجھا دیا جاتا ہے۔ کوئی عقیدہ انسانوں کے روزگار، صحت و بہبود کے مسائل کو حل کرنے کا کوئی نظام پیش نہیں کرتا البتہ وہ معاشرتی سدھار کے لئے بعض اصول ضرور وضع کرتا ہے۔ حکومت جب مدینہ ریاست کے غیر مبہم نعرے کو اپنی سیاسی و معاشی ترجیحات کی بنیاد قرار دے گی تو اس تاثر کو حکومت کی ہر ناکامی کے بعد تقویت ملے گی کہ مسائل حل کرنے میں ناکام ہونے والی حکومت مذہب کو نعرے کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ مذہبی سلوگن کے غلط استعمال سے پاکستان کو ماضی میں بھی شدید مشکلات اور الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اب بھی اگر وہی طریقہ کسی نئے نام سے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا مختلف نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔
حکومت کی اس حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر حکومت مذہب کو نعرہ بنا کر اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش کرے گی یا اپنی سیاسی اور معاشی ناکامیوں پر پردہ ڈالے گی تو اپوزیشن بھی یہی طریقہ اختیار کرے گی۔ اس طرح ملک میں مذہبی شدت پسندی اور حد بندی میں اضافہ ہوگا اور عوام کو درپیش مسائل کی گفتگو جذباتی نعروں اور الزام تراشی میں تبدیل ہوجائے گی۔ یہ صورت حال اس وقت بھی کسی حد تک موجود ہے ۔ اور ملک کو درپیش مسائل کی وجہ بھی بنی ہوئی ہے۔ اس رویہ میں اضافہ خطرناک نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جمیعت علمائے اسلام کے مولانا فضل ا لرحمان ’آزادی مارچ‘ شروع کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس احتجاج کو مذہبی شکل دینے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ اس کے نتیجہ میں جمیعت علمائے اسلام نے اب جن تین بنیادوں پر ’آزادی مارچ‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، ان میں عمران خان کا استعفیٰ، اسمبلیاں تحلیل کرنا اور نئے انتخابات کروانے کے معاملات سر فہرست ہیں۔
گویا ایک خالصتاً مذہبی جماعت سیاسی پذیرائی کے لئے مذہب کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرنے سے گریز پر مجبور ہوئی ہے۔ اس صورت حال میں اگر حکومت بدستور مذہب کو سیاسی پالیسیوں کی بنیاد بناکر اپوزیشن کو زچ کرنے اور خود سرخرو ہونے کی حکمت عملی پر گامزن رہے گی تو مذہبی عناصر بھی اس کا ترکی بہ ترکی جواب دینے سے بہت دیر تک باز نہیں رہیں گے۔ حکومت اگر خود اپنی سیاسی و معاشی ناکامیوں پر الزام تراشی اور مذہبی حوالوں سے پردہ ڈالنے کی کوششیں ترک کردے تو ملک میں ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے جو ملکی سیاست میں مذہب کے ناروا استعمال کی روک تھام کا سبب بنے گا۔ تاہم اس کے لئے عمران خان کو اپنی سوچ اور خود ستائی کے حصار سے باہر نکلنا ہوگا۔
عمران خان کی کابینہ میں تبدیلیاں اس وقت تک کارگر نہیں ہوسکتیں جب تک وہ خود اپنی سیاسی سوچ اور طریقہ کا ر کی کمزوریوں کا ادراک کرتے ہوئے انہیں تبدیل کرنے کا اشارہ نہیں دیتے۔ عمران خان اگر پوری کابینہ بھی تبدیل کردیں لیکن ان کی پالیسی ’این آر او نہیں دوں گا یا سابق حکمران ملک لوٹ کر کھاگئے‘ جیسے نعروں اور مدینہ ریاست کے خواب کے گرد ہی گھومتی رہے تو بہتری کی امید نہیں کی جاسکے گی۔ یہ کہنا تو شاید درست نہیں ہو گا کہ مسئلہ عمران خان خود ہیں لیکن اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ تحریک انصاف کو اس وقت جن سیاسی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ عمران خان ہی ہیں۔ تحریک انصاف کسی پارٹی سے زیادہ ایک شخص، اس کی مقبولیت اور خاص طرح کی سوچ کا نام ہے۔
ملکی سیاست میں جمیعت علمائے اسلام کے ’آزادی مارچ‘ سے ایک انتشار کا اندیشہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس دوران مقید سیاسی لیڈروں کے ساتھ روابط کی خبروں سے بھی یہی قیاس قوی ہوتا ہے کہ طاقت ور حلقے موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ عوام کی ناراضگی جاننے کے لئے کسی سیاسی جائزے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک برس کے دوران جب حکومت بنیادی نوعیت کی خرابیوں کو دور کرنے میں کامیاب نہ ہو ئی ہو اور وعدے پورے کرنے کی بجائے ناکامیوں کے عذر تراشے جارہے ہوں تو عوام کی امیدوں کے گھروندے پامال ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اس ناراضگی کا ایک اشارہ اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت میں اضافے کی خبریں ہیں اور دوسرا پہلو ہر آنے والے دن کے ساتھ ایک نئے مشن کا اعلان اور پھر اسے نامکمل چھوڑ کر نیا کام کرنے کا ارادہ باندھنا بھی ہو سکتا ہے۔
اس وقت عمران خان مقبوضہ کشمیر کی صورت حال تبدیل کروانے کے مشن پر کاربند ہیں حالانکہ اس معاملہ پر بھارت کے ساتھ کسی نتیجہ پر پہنچنے کے سارے کارڈ ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ گو کہ پاکستانیوں کے لئے انتہائی جذباتی مسئلہ ہے لیکن ان کی فوری ضرورت ، روزمرہ زندگی کی سہولتیں، گھر کا راشن، بچوں کی صحت و تعلیم کے مسائل اور اس سے جڑے دیگر معاملات ہیں۔ ایسے میں اگر عمران خان کی حکومت کے خلاف احتجاج میں کشمیر پر سودے بازی کا نعرہ بھی شامل کرلیا گیا تو ملک کو کسی بڑے سیاسی طوفان کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ طوفان سر اٹھانے لگا تو ہر سیاسی پارٹی اس کا حصہ بننے پر مجبور ہوجائےگی۔
اس صورت حال سے بچنے کے لئے بعض حلقوں کی جانب سے عمران خان کی سربراہی میں قومی حکومت قائم کرنے کی تجویز بھی دی جارہی ہے۔ ہوسکتا ہے طاقت کے ایوانوں میں اس قسم کی کوئی تجویز زیر غور بھی ہو۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ جو سیاسی عناصر پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر کشمیر جیسے متفقہ مسئلہ پر بھی اتفاق رائے کرنے اور مل کر آگے بڑھنے میں کامیاب نہیں ہوئے، وہ قومی حکومت کو کس طرح کامیابی سے چلا سکیں گے۔ ملک میں کسی نئی حکومت کی بجائے موجودہ حکومت کو اپنی سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوری روایت اور اداروں کو نظر انداز کرکے کوئی حل تلاش کرنے کی بجائے ، انہیں مستحکم کرنے اور نظام کو مؤثر اور قابل اعتبار بنانا بہتر ہوگا۔
تحریک انصاف کی حکومت کو اعتراف کرنا چاہئے کہ اس کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے اور اس کے ساتھ ہی نعرے بازی اور الزام تراشی کا طریقہ ترک کرکے کسی وسیع تر متفقہ سیاسی و معاشی پلیٹ فارم پر اپوزیشن کی تائد حاصل کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اپوزیشن کو بھی دیانت داری سے اس منصوبہ میں حکومت کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔ کرپشن کے معاملات کو سیاسی ایجنڈا کا حصہ بنانے کی بجائے عدالتوں کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ سپریم کورٹ اگر احتساب میں سیاسی انتقام کی آمیزش محسوس کرتی ہے تو اس پر افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے، عملی اقدام مستحسن ہوگا۔
میڈیا کو پابند کرنے اور مخالف رائے کو مسترد کرنے یا ملک دشمنی قرار دینے کا یجنڈا ، فرسودہ، ناکارہ اور ملک کے مفادات سے متصادم ہے۔ اسے ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم اور اپوزیشن یکساں طور سے خود مختار میڈیا کے ذریعے خود کو عوام کے سامنے جوابدہی کے لئے پیش کرنے پر آمادہ ہوں۔ میڈیا کی تطہیر کے لئے حکومتی دباؤ اور عدالتی تنبیہ کی بجائے عالمی طور سے تسلیم شدہ خود احتسابی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ میڈیا ہاؤسز پر مالکان کا ادارتی کنٹرول ختم کیا جائے اور صحافیوں کی پیشہ وارانہ تربیت میڈیا ہاؤسز کی بنیادی ذمہ داری قرار دی جائے۔
ان چند اصولوں کو مان لینے اور ان پر دیانت دارانہ عمل ہی پاکستان کے مسائل کو کم کرے گا اور ملک اقوام عالم میں سرخرو بھی ہوگا ۔ تب ہی پاکستان قومی حکومت کی ضرورت یا ماورائے جمہوری اقدام کے خوف سے محفوظ بھی رہ سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali