شعر دولخت اور کالم بے ربط کیسے ہوتے ہیں؟


ہم نے اس دیار خوش رنگ میں ہر طرح کا موسم دیکھا، امید کی رت دیکھی۔ حبس کا عالم دیکھا، بہار کے آمد کی سندیسے سنے، خزاں کے ٹھہر جانے کی آزمائش سے گزرے۔ الحمدللہ، اس مٹی سے فراق کا خیال تک نہیں گزرا۔ پیر و مرشد پرویز مشرف کے جلوس بے اماں میں کچھ مدت کے لئے البتہ رخصت لی تھی۔ اس میں ظل سبحانی کی آشفتہ سامانی سے کہیں زیادہ اہل وطن کی چاک دامانی کو دخل تھا۔ کل آبادی 15 کروڑ تھی اور مزاحمت کرنے والوں کی تعداد مشکل سے تین ہندسوں تک پہنچ سکی۔ کیا خاک جیے کوئی، شب ایسی، سحر ایسی۔ مزید تعلیم کا حیلہ کر کے کوئی دو برس بدیسی زمینوں میں گزارے اور پھر فراق گورکھ پوری کے لفظوں میں، پلٹ رہے ہیں غریب الوطن، پلٹنا تھا۔

بات یہ ہے کہ وطن محض پیدائش کے حادثے کی عصبیت نہیں، اس میں عہد طفلی کی کھلکھلاتی حیرت کی تصویریں ہیں، بزرگوں کی شفقت کے احسان گھلے ہیں، اساتذہ کی فیض رسانی کا تشکر ہے، دوستوں کی مجلسوں کے غلغلے ہیں، خوباں کی مہربان صحبتوں کی یاد ہے، تاریخ کے چرکوں کے نشان ہیں، تہذیبی روایت کا بندھن ہے، شعر و ادب کے ناتے ہیں، گزر جانے والوں کی میراث ہے، آنے والوں کا امکان ہے۔ وطن کوئی ایسا مظہر نہیں کہ رقبے اور آبادی کے اعداد و شمار میں بیان کر دیا جائے، دلی کے نہ تھے کوچے، اوراق مصور تھے۔

دوسری جنگ میں جرمن قبضے کے بعد فرانس کے بے شمار شہری جان بچا کر ادھر ادھر نکل گئے۔ ایک جلاوطن مصنف نے اپنا تجربہ بیان کیا کہ زیر زمیں ٹرین میں سفر کرتے ہوئے فرانسیسی زبان میں اگلے اسٹیشن کی آمد کا اعلان سنائی دیتا تھا تو بے اختیار آنسو نکل پڑتے تھے۔ جس نے آئرلینڈ کے جنگلوں میں زمیں پر بچھے چوڑے پتوں کے فرش پر محبت کرنے والوں کی آہٹ نہیں سنی، وہ جیمز جوائس کو کیسے سمجھے گا؟ کبھی امین مغل سے پوچھیے گا کہ 35 برس کی بے وطنی کے بعد چونا منڈی کی گلیاں خواب میں کس رنگ سے ظاہر ہوتی ہیں؟

وزیر اعظم عمران خان کے ایک بیان بے بدل کا ذکر کرنا تھا کہ احوال وطن کدھر سے کدھر نکل گیا۔ شکوہ ہے کہ ملک میں ایوان نمائندگان سے عدلیہ تک، اخبار کے صفحے سے نشریات کے آہنگ یک رنگ تک، ایک ورائے حقیقت (Surrealist) کیفیت اتر آئی ہے۔ کشمیر کی جھیلوں پر پرندے اس برس بھی اترے ہوں گے مگر انہیں دیکھنے والے گھروں میں قید ہیں۔ ہر صبح سکول کی گھنٹی بجتی ہے لیکن کتابوں کا بستہ اٹھائے بچوں کے پرے نظر نہیں آ رہے، آٹھ ہفتے ہونے کو آئے، ہزاروں ماو¿ں کو اپنے جگر کے ٹکڑوں کی کوئی خبر نہیں۔ غلام نبی آزاد کہتے ہیں کہ کشمیر کی آزمائش بیمار کی رات ہو گئی ہے۔ ایسے میں ہمارے وزیر اعظم کشمیر کا سفیر بن کر جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے پہنچے ہیں۔ البتہ ایک مدعا ایسا ہے جسے ہمارے وزیر اعظم سوتے جاگتے میں ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ احتساب کا ایک مضمون ہے جسے سو رنگ میں باندھتے ہیں۔

امریکی کونسل فار فارن ریلیشنز سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی سے میں چین کی طرح کرپشن کے خلاف نہیں نمٹ سکتا۔ بدقسمتی سے میرے پاس چینی ماڈل نہیں۔ کاش میں کرپٹ لوگوں کے ساتھ وہ کرسکتا، جو چین نے کیا۔ ژولیدہ بیانی کوئی ہمارے قائد ولولہ انگیز سے سیکھے۔ سامنے کی ایک بات تو یہ سمجھ آئی پاکستان کے با اختیار وزیر اعظم مزید اختیار چاہتے ہیں لیکن اس استمراری آرزو کے کچھ آئینی، سیاسی اور اخلاقی پہلو توجہ چاہتے ہیں۔

نومبر 2012 میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی اٹھارہویں کانگریس نے صدر شی جن پن کو منتخب کرنے کے علاوہ کرپشن کے خلاف مہم کا بھی اعلان کیا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی تب 64 برس سے برسراقتدار تھی، کرپشن کیوں ختم نہیں کر سکی؟ 1966 کے ثقافتی انقلاب میں لاکھوں اہل کاروں کی گردن ناپی گئی، کرپشن ختم نہیں ہوئی۔ ڈینگ شیاو¿ پنگ نے چین میں نیا معاشی بندوبست شروع کرتے ہوئے چار کے ٹولے کی خبر لی تھی۔ کرپشن کا عارضہ برقرار رہا۔

چین کی حالیہ اینٹی کرپشن مہم 2012 میں شروع ہوئی تو ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن میں چین کا درجہ 80 تھا۔ 2018 میں چین کو 87 کا درجہ مل سکا۔ کرپشن کے خلاف چھ برس کی مہم کے باوجود کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔ ایسا کیوں ہوا کہ چین کی سیاسی اشرافیہ کی بجائے وہی افراد کرپشن کے شکنجے میں آئے جو سماجی طور پر کمزور کوائف کے حامل تھے۔ چین کی اینٹی کرپشن مہم معمول کے عدالتی نظام کی بجائے کمیونسٹ پارٹی کے متوازی ڈھانچوں کی مدد سے چلائی جا رہی ہے۔

کرپشن کے الزامات میں سزا دینے کی شرح 99 فیصد ہے۔ کیا اشتراکی روایت میں کرپشن کا احتساب اقتدار کی داخلی کشمکش سے منسوب نہیں کیا جاتا؟ مبصرین کہتے ہیں کہ چین کی اینٹی کرپشن مہم کا حقیقی ہدف سابق صدر جیانگ ژمن کا اثر و نفوذ ختم کرنا تھا۔ ایک بنیادی سوال یہ کہ یک جماعتی نظام حکومت میں کرپشن کا غیر جانبدار احتساب ممکن ہے؟ عمران خان سے بہتر کون جانتا ہے کہ یک جماعتی نطام میں تو سنکیانگ کے مسلمانوں کا نام لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔

پاکستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت 2013 میں قائم ہوئی تو ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو کرپشن میں 139 کا درجہ دے رکھا تھا۔ 2015 سے 2018 تک ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے تسلسل سے پاکستان کو 116 اور 117 کی درجہ بندی میں رکھا۔ نیب کی حالیہ کارروائیوں کے بارے میں تو انصاف کے اعلیٰ ترین منصب دار بھی یک طرفہ احتساب کے خدشات رکھتے ہیں۔ احتساب اس قدر غیر جانبدار ہے کہ ملزمان اپنے مقدمات کا فیصلہ تعویق میں ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نیب نے کرپشن کی رقوم بازیاب کرنے کے اعداد و

شمار تو دیے، یہ نہیں بتایا کہ اس میں سے کتنی رقم سیاست دانوں سے موصول ہوئی۔ احتساب کے ذمہ دار عہدے داروں کے نہفتہ معاملات چشم اختیار میں موقر قرار نہیں پائے۔ حزب اختلاف احتساب کی زد میں ہے جب کہ مقتدر جماعت کے ارکان داروگیر سے مامون ہیں۔ دعوی یہ ہے کہ نیب کا با اختیار ادارہ کرپشن کے خلاف موثر کردار ادا کر رہا ہے، دوسری طرف وزیر اعظم مزید اختیارات کی خواہش سے گویا نیب پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہیں۔

ہمارے دستور میں آرٹیکل دس (الف) منصفانہ سماعت کا حق دیتا ہے۔ ہمارا دستور کثیر الجماعتی پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے شہریوں کو اپنے سیاسی رہنماو¿ں کے انتخاب کی وسیع تر آزادی دیتا ہے۔ کیا وزیر اعظم ایسے جمہوری دستور کی بجائے یک جماعتی نظام حکومت کو بہتر سمجھتے ہیں۔ عمران خان چین، ترکی، ملائشیا، ایران اور سعودی عرب کے باہم متضاد سیاسی بندوبست سے بار بار شیفتگی ظاہر کرتے ہیں۔ یاد دلانا چاہیے کہ ہمارے ملک میں قائد اعظم محمد علی جناح نامی ایک سیاست دان گزرے ہیں جنہوں نے ہمیں جمہوریت کا درس دیا تھا۔

ہمارے دستور میں اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا اصول جمہوری پاکستان میں شفاف حکومت اور بے لاگ احتساب کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر اختیارات کو ایک نیک طینت رہنما کے دست معجز کار میں مرتکز کرنا ہے تو قوم کی انگلیون سے لہو رستا رہے گا، منصف کا فیصلہ متنازع رہے گا، شاعر کا شعر دولخت ہو گا اور صحافی کا کالم بے ربط رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).