مشہور اشعار، گمنام شاعر 2


ان تمام ادباء، شعراء اوراردو ادب پر تحقیقی کام کرنے والے طلباء کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ذاتی طور پر فون، میسجز اور مختلف ذرائع سے میرے اس تحقیقی کام کو سراہا اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ بہر حال ان طلباء کے لئے عرض ہے کہ شعر کا لفظ تاریخی طور پہ شعور سے نکلا ہے یعنی کسی چیز کو جاننا اور جدید اصطلاح میں ایسا کلام جو کسی واقعے یا موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہو۔ اور اس کے کہنے کا کوئی مقصد بھی ہو۔ شعر کا اصل حسن خیال کی پختگی اور بلندی ہے۔

دراصل شاعری حالات و واقعات کی ترجمان ہوتی ہے اور اس معاشرے اور ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں شاعر رہتا ہے، صرف فنِ شاعری ہی شاعری کا موجد نہیں، بلکہ وہ جذبات، احساسات اور ماحول و حالات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کرتے ہیں بس وہی شاعری ہے، وہی امر ہو جاتی ہے۔ بہترین شاعری بہترین خیالات کی عکاسی کرتی ہے، جو شعر حالات اور واقعات کا عکاس ہو وہی با کمال شعر ہوتا ہے، شعر ایسے معنی کا حامل ہو کہ جو بھی پڑھے وہ یہی سمجھے کہ بات اسی کے خیالات کی عکاسی کر رہی ہے۔ صرف فنِ سخن ہی اچھی شاعری کا ضامن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیکنڑوں اشعار زبان زدِعام اور ضرب المثل کے طور پر استعمال ہورہے ہیں کیونکہ وہ حالات کے عکاس ہیں جبکہ ایسے لافانی اشعار کے تخلیق کاروں کے ناموں سے لوگ ناواقف ہیں۔

قارئین کے لئے عرض ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے اشعار ہیں جو اب بھی تحقیق کے متقاضی ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان اشعار کو کن شعراء نے لکھا ہے، حالانکہ وہ اشعار دوسرے شعراء سے منسوب کردیئے گئے ہیں۔ اردو کے متعدد گمنام شعراء ایسے ہیں، جن کے ایک یا دو اشعار اتنے مشہور ہوئے کہ وہ لوگوں کے حافظہ کا حصہ بن گئے، لیکن لوگ ان اشعار کے اصل سخنور کے نام سے لاعلم ہیں۔ ان گمنام شعراء کے بعض اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں یا ان کے شعر کا کوئی ایک مصرع زبان زد خاص و عام ہوچکا ہے۔ زبان زد اشعار، ضرب المثل اشعار، ضرب المثل مصرعے، گمنام یا غیر معروف شعراء کے ہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، لیکن ان کے متعلق تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے انھیں شہرت نہیں ملی ورنہ ان کے اشعار مشہور اور بڑے شعراء کی صف میں انھیں کھڑا کرنے کے قابل ہیں۔

بہت ہی کم لوگ ایسے ہوں گے جن کو یہ شعر ازبر یاد نہ ہو یا اس کو کسی موقع پر کسی کو تنبہیہ یا ہدایت کرتے ہوئے استعمال نہ کیا ہو، عام لوگ اس شعر کو دہراتے تو ہیں لیکن اس شعر کے خالق کے نام سے واقفیت نہیں، ادب سے وابستہ کئی لوگ اس شعر کو غالب، آتش اور دیگر مقدمین شعراء سے منسوب کرتے حالانکہ یہ شعر محمد مستؔ کلکتوی کا ہے۔

وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا

عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا

اگر قارئین کسی قبرستان میں جا کر دیکھیں تو یہ شعر آپ کو تقریبآ ہر لوح مزار پر لکھا ہوا نظر آئے گا اورآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے منسوب یہ شعر بھی ان کا نہیں بلکہ ہندوستان کے مشہور شاعر جاوید اختر کے دادا مضطر خیر آبادی کا ہے۔ جن کا مجموعہ کلام ”خرمن“ کے نام سے جاوید اختر نے ترتیب دیا، مضطر خیر آبادی کے بیٹے اور جاوید اختر کے والد جاں نثار اختر بھی اپنے دور کے عمدہ شاعر تھے۔

پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

نہ جانے کتنے اشعار جو لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہیں اور وہ برمحل ان اشعار کا استعمال کرتے ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ اسے کس شاعر نے لکھا ہے، جیسا کہ اس شعر کو بھی غالب سے منسوب کیا جاتا ہے، دراصل یہ شعر منشی میاں داد سیاح اورنگ آبادی کا ہے جو کہ مرزا غالب کے شاگرد تھے اور غالب نے سیاح کو سیف الحق کا خطاب بھی دیا تھا۔ خطوظ غالب میں سیاح کے نام سے متعدد خطوط بھی شامل ہیں۔ بعد میں سیّاح ان کا تخلص ہوگیا۔

قیس صحراء میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

چونکہ میرے کالم کاعنوان ”مشہور اشعار، گمنام شاعر ’ہے اس لئے یہاں صرف انہی اشعار کو نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، جن کے شاعر سے ہم لاعلم ہیں، یا جنھیں شہرت نہیں ملی، لیکن ان کے اشعار زیادہ مشہور ہوگئے۔ ایسے سیکڑوں اشعار ہیں، مگر یہاں ان تمام کا ذکر ممکن نہیں، تاہم بعض اشعار اور ان کے گمنام شعراء سے قارئین کو متعارف کرانا مقصود ہے

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں (حیرت الہ آبادی)

چاہت کا جب مزہ ہے کہ وہ بھی ہوں بیقرار

دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی ( ظہیر دہلوی)

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

(لالہ مادھورام جوہر فرخ آبادی )

اب مجھ سے کاروبار کی حالت نہ پوچھئے

آئینہ بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں (محمود سروش)

معروف شاعر محسن نقوی سے منسوب یہ دعا دراصل میر احمد نوید صاحب کی ہے جنہوں نے یہ دعا کوئی چالیس بیالیس سال پہلے لکھی اور ان کی کتاب ”التجائے نوید“ میں میں بھی موجود ہونے کے باوجود بھی یہ محسن نقوی شہید سے منسوب ہے۔

اے ربِ جہاں پنجتن پاک کا صدقہ

اس قوم کا دامن غم ِ شبیر سے بھر دے

غم کوئی نہ دے ہم کو سوائے غمِ شبیر

شبیر کا غم بانٹ رہا ہے تو ادھر دے

ایک نہایت مشہور شعر جو مضمون نگار، مقررین اور اہل ذوق حضرات اکثر و بیشتر استعمال میں لاتے ہیں، لیکن انھیں اس کا علم نہیں کہ یہ شعر دراصل کس کا ہے۔ عام طور پر اہل علم حضرات بھی اس سے بے خبر ہیں۔ اور اس زبانِ زد عام شعر کو علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر وغیرہ سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ اس ضربُ المثل شعر کا خالق گمنام شاعر جناب برق لکھنوئی ہے۔ برق لکھنوی کا اصل نام مرزا محمد رضا خاں تھا لیکن وہ برق تخلص کیا کرتے تھے اور استاد ناسخ کے شاگردوں میں تھے۔ ایک دیوان ان کی حیات میں 1853 میں شائع ہوا۔ 1857 میں کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔

مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے، جو منظورِ خدا ہوتا ہے

خاص کر یہ شعر تو تقریبآ ہر سیاسی جلسے میں سننے کو ضرور ملتا ہے، جبکہ سید قائم علی شاہ صاحب اس شعر کو اب تک صحیح ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ بہرحال محقیقین کے مطابق یہ شعرعلامہ اقبال کا نہیں بلکہ شہیر مچھلی شہری کاہے۔ آپ 1856 میں جونپور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجدادایران کے علاقے نیشاپور سے مچھلی شہر کے محلہ سیّد واڑہ میں آکر آبادہو گئے تھے۔ 1929 میں شہیر کا انتقال ہوا۔ 1935 میں ان کا ایک دیوان ”خیابان ترنم“ کے عنوان سے شائع ہوا۔

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی شکست وفتح کی صورت میں اگر تسلی کے دولفظ اداکرنے ہوں تو میر تقی میر اور امیر مینائی کے نام سے منسوب یہ مشہور شعر ضرور پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ نواب محمد یار خاں امیر ٹانڈوی کا ہے۔

شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

اردو شاعری میں ایسے سینکڑوں اشعار ہیں جو شاعر سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ محقیقین نے کوشش کی کہ ان اشعار سے بچھڑے ہوئے ان کے اصل تخلیق کاروں سے جوڑا جائے، جیسا کہ اگر کسی کے سر پہ بن آئے تویہ شعر دہرانا کوئی نہیں بھولتا۔ لوگ اس لازوال شعر کو داغ، غالب اور دوسرے مختلف شعراء سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ شعر پنڈت مہتاب رائے تاباں کا ہے۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

شاید ہی کوئی ہو جس نے کسی خاص صورت حال کی ترجمانی کے لیے اپنی زبان سے یہ شعر ادا نہ کیا ہو۔ اس لافانی شعر کے خالق کو بھی کوئی نہیں پہچانتا، اس بے مثال شعر کو بھی عوام مختلف شعراء کے نام سے جوڑتے ہیں جبکہ اس شعر کے خالق ثاقب لکھنوی ہیں۔ ثاقب لکھنوی کی شاعری میں پائے جانے والے گداز اور سلاست کی وجہ سے ان کی کئی اشعار ان کے نام سے بہت آگے نکل گئے، شعر گوئی میں محویت اور دنیا سے بے خبری کا ہی یہ عالم تھا کہ ثاقب لکھنوی کے متعدد اشعار ضرب المثل بن گئے جو انسانی درد کی مجسم تصویر بن کر ہمارے سامنے آئے۔ ان کے اشعار ہر دوسرے شخص سے سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن کسی کی زبان پر اس شاعر بے مثال کا نام نہیں آتا۔

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمی سو گئے داستان کہتے کہتے

نشیمن نہ جلتا نشانی تو رہتی

ہمارا تھا کیا ٹھیک رہتے نہ رہتے

حوالہ جات : (آغا محمد باقر، غزلیات برق۔ خلیق الزمان نصرت، بر محل اشعار، حفیظ جونپوری حیات و شاعری۔ ماہنامہ نیا دور لکھنؤ۔ مولانا محمد حسین آزاد، آبِ حیات۔ رضا الرحمن عاکف دہلوی، سوانحی انسائیکلوپیڈیا جلد اول، جدید غزل گو، دیوانِ سیاح۔ جواہر سخن۔ کلام جوہر۔ متاع ِ ہنر، ماہنامہ انشاء کلکتہ۔ التجائے نوید


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).