محبتوں کا سفیر


زندگی میں اکثر وبیشتر ایسی شخصیات سے واسطہ پڑتا ہے، جن سے مل کر، جن سے بات کرکے، جن کے کارنامے اور کام دیکھ کر آپ ان کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں، آپ کا زندگی پر اعتبار قائم ہوجاتا ہے، بندہ ایک وقت ضرور سوچتا ہے کہ ضرور کوئی نہ کوئی طلسم اس بندے کی ذات سے جڑا ہوا جو ہرکوئی کچے دھاگے سے جڑا چلا آتا ہے، بظاہر عام سے دکھنے والے گوشت پوست کے انسان اپنے اندر کوئی نہ کوئی کرشماتی طاقت ضرور رکھتے ہیں۔ سرور بارہ بنکوی نے کیا خوب کہا ہے۔ جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ/آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں۔

آج میں اپنے قارئین کی ملاقات ایک ایسے ہی کردار سے کروانا چاہتا ہوں جو پہلی ہی ملاقات میں نہ جانے کون سا روٹ اختیار کرتے ہیں کہ دل کے مکیں ٹھہرتے ہیں اور بغیر کرایہ اور معاہدہ کیے آپ کے دل کے کرائے دار تو کیا مالک و قابض بن بیٹھتے ہیں۔ ایسی شخصیت کا نام ملک فیاض اعوان ہے، پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں، فطرت کے لحاظ سے انسان دوست ہیں اور مشاغل کے لحاظ سے سماج سیوک۔ حلیے اور جسامت کے لحاظ سے ملک صاحب کوئی ریٹائرڈ پہلوان معلوم ہوتے ہیں، جنہوں نے اکھاڑے میں کئی لوگوں کو پچھاڑ رکھا ہولیکن درحقیقت انتہائی رقیق القلب اور ملنسار ہیں۔

انہوں نے آسمان سے کردار کی بلندی اور زمین سے کشش ثقل اور عاجزی مستقل مستعار لے رکھی ہیں۔ میری قربت کی وجہ یہ ہے کہ موصوف میرے روحانی و ادبی مرشد جناب سجاد جہانیہ کے ہمزاد، ہم نشین اور ہم سفر ہیں۔ ملک فیاض اعوان ایک متحرک، مقبول اور عملی ادبی، سماجی اور ثقافتی تنظیم بزم احباب کے روح رواں ہیں اور اپنے رفقاء جن میں محتشم ترین، رانا تصویر احمد، عثمان مغل، کیپٹن (ر) ناصر مہیے اور دیگر ہیرے جیسے دوستوں کے ساتھ مل کر ادبی و ثقافتی شامیں آباد کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

حال ہی میں بزم احباب نے سجاد جہانیہ کی خوبصورت تصنیف ”ادھوری کہانیاں کی تیسری اور سب سے شاندار تقریب رونمائی منعقد کروائی، سال 2019 کے ادبی منظر نامے پر سجاد جہانیہ کی یہ کتاب پورے طور چھائی نظر آتی ہے، دنیائے سخن کے آئمہ و سالاران نے دل کھول کر اس کتاب کی تعریف میں لکھا اور اسے ادبی دنیا میں شاندار اضافہ قرار دیا۔ مجھ ایسے ہیچ مداں کے لیے خوشی اور اعزاز کی بات ہے کہ اس کتاب پر پہلا اخباری کالم لکھنے کی سعادت بھی مجھے ملی اور اس کتاب کی لاہور جیسے تاریخی، علمی اور تہذیبی مرکز میں اس کتاب کی تعارفی تقریب برپا کرنے کا سہرہ بھی اس ادبی تنظیم کے حصے میں آیا، جس کا ایک ادنیٰ سا رکن میں بھی ہوں۔

پاکستان رائٹرز کونسل نے 17 فروری 2019، ای لائبریری، لاہور میں ایک تقریب منعقد کی جس کی صدارت ادیب العصر جناب عطاء الحق قاسمی نے کی، جبکہ اظہار خیال کرنے والوں میں مجیب الرحمان شامی، عطاء الرحمان، ملک احمد خان، علی اصغر عباس، فلم سٹار راشد محمود، سعود عثمانی، گل نوخیز اختر، بابا نجمی، افضل عاجز، اقبال خان منج، رانا تصویر احمد، ملک فیاض اعوان سمیت نمایاں ادبی، علمی و صحافتی شخصیات شامل تھیں، ڈاکٹر اختر شماراور یاسر پیرزادہ بوجوہ تقریب میں شامل نہ ہوسکے لیکن انہوں نے تحریری طور پر کتاب کے بارے میں اپنا موقف دے دیا، جو کہ ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔

2، مئی، 2019، پٹھانے خان کے تاریخی شہر کوٹ ادو میں ندیم رحمان ملک جو کہ خود بھی صاحب طر ز لکھاری اور دانشور ہیں نے کتاب کی تعارفی تقریب کی میزبانی کی، اُس تقریب میں مقامی زعمائے ادب نے صاحب کتاب کو جی بھرکے خراج تحسین پیش کیا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ صاحب کتاب سجاد جہانیہ، شہرت اور خود نمائی سے کوسوں دور بھاگتے ہیں، مجھے پتہ ہے کہ میں نے کتنے اصرار اور متعدد درخواستوں کے بعد انہیں کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے آمادہ کیا تھا، اس کے بعد ندیم رحمان ملک صاحب کے معاملے کا مجھے علم نہیں کہ وہ جہانیہ صاحب کو کوٹ ادو لے جانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟

خیر میں نے اور ندیم رحمان ملک نے تو جیسی تیسی تقاریب منعقد کرلیں لیکن سجاد جہانیہ کے ہمدم دیرینہ ملک فیاض اعوان اور ان کے رفقاء جن میں رانا تصویر احمد، محتشم ترین، کیپٹن (ر) ناصر مہے، عثمان مغل، عمران مغل جیسے دوست شامل ہیں وہ ملتان میں بھی اس نوشائع شدہ کتاب کی تقریب کروانا چاہتے تھے لیکن صاحب کتاب تھے کہ ہاتھ آکے نہیں دے رہے تھے، جب بھی ملک فیاض اعوان سجے کھبے گھیر گھار کر کتاب کی تقریب کے بارے میں بات کرتے تو صاحب وہی روکھا اور ٹکا سا جواب دیتے کہ ”یار بس بھی کردو، اب اس کتاب کی تقاریب کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے، یار کچھ اور کام کرو“ کبھی فیاض اعوان صاحب کا موڈ ذرا خوشگوار پاتے تو پھر دبے لفظوں اپنی خواہش کا اظہار کردیتے تو صاحب بھی قدرے نرمی سے کہتے ”یار فیاض، جو پہلے دو تقاریب ہوچکی ہیں، ابھی تک تو ان لمحات کے سحرمیں جکڑا ہوں، میری رگ رگ میں خوبصورت جملوں کا سرور دوڑ رہا ہے، یار مجھے اس خمار سے نکل تو لینے دو“ یوں پھر بات آئی گئی ہوجاتی اور فیاض اعوان کے ارمان دل میں ہی رہ جاتے، اس دوران میرا فیاض اعوان سے رابطہ رہا۔

آخر سجاد جہانیہ کو اپنے یار فیاض اعوان کے آگے ہتھیار ڈالتے ہی بنی اور یوں 21 ستمبر کو تیسری تقریب پذیرائی کا ڈول ڈال دیا گیا۔ فیاض اعوان نے جہاں بہت سے گلاب رخ چہروں کو مہمان خصوصی اور مہمان اعزاز کا ٹیگ عطا کیا وہیں ہم ایسے دھتوروں کو بھی گلاب کی سی حیثیت دیتے ہوئے شمولیت کی دعوت دی، پہلے بھی مجھے فیاض اعوان کی طرف سے سجائی گئی محفلوں میں شرکت کا شرف حاصل ہے، میں جانتا ہوں کہ محفل میں شریک ہربندہ یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ شاید وہی مہمان خصوصی ہو۔

تقریب میں شرکت کی غرض سے راقم معروف و مقبول نغمہ نگار، مصنف اور انسان دوست شخصیت افضل عاجز اور ابھرتے ہوئے کالم نگار نگار پروفیسر غلام محی الدین کی ہمراہی میں ملتان کے لیے روانہ ہوا۔ میں جب بھی ملتان کا رخ کرتا ہوں تو کچھ میرے دل کے مہرباں، دھیمے سروں میں ہلکی پھلکی موسیقی شروع کردیتے ہیں اور جانے پہچانے راگوں میں یہ گاتے پائے جاتے ہیں کہ یہ کالم نگار یعنی مرزا محمد یٰسین بیگ اگر کوئی ایک آدھ لائن لکھنے کے قابل ہوا، یا اعلیٰ سطحی مجالس تک رسائی رکھتا ہے، یا اس کی شخصیت میں کوئی اثبات کا پہلواگر ہے جو ہمیں آج تک نظر نہیں آیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس کوڑھ مغز کی سجاد جہانیہ سے ملاقات کروائی تھی، لہذا وہ براق نما سیڑھی ہم ہیں جن پر سواری کرکے موصوف آج شیخیاں بگھارتے ہیں۔

میں اس کالم کے ذریعے اپنے مہربانوں اور قدردانوں کے چھیڑے گئے راگوں کی تصدیق کرتا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے کہ واقعتا سجاد جہانیہ ہی وہ شخصیت ہیں جنہیں دیکھ کر میرے اندر قلم پکڑنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور میرا حرف و لفظ پر اعتبار قائم ہوا، وگرنہ مہربان تو جن فرزندان ملتان اور فخر سیاست شخصیات سے ملواتے چلے آئے تھے شاید میرا انسانیت سے بھی اعتبار اٹھ جاتا۔ دوبارہ تقریب پذیرائی کا رخ کرتے ہیں، ملتان ٹی ہاؤس میں عمومی طور پر 180 کے قریب نشتیں رکھیں ہوتی ہیں لیکن اھوری کہانیاں کی تقریب کے لیے منتظمین کو کھینچ کھانچ کر 300 کرسیاں رکھنی پڑیں لیکن حاضرین تھے کہ پھر بھی دیواروں کے ساتھ کھڑے تھے، تقریب کی صدارت سجاد جہانیہ کے والد گرامی جناب محمد حسین جہانیہ کررہے تھے جو کہ خود صاحب طرز قلم کار ہیں، جبکہ باقی مقررین میں سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیراعظم پاکستان، ندیم قریشی پارلیمانی سیکرٹری کلچر و اطلاعات، رؤف کلاسرہ، شوکت اشفاق، افضل عاجز، سلیم ناز، قاضی عبدالرحمان عابد، ڈاکٹر شگفتہ حسین، رانا محبوب اختر، رانا تصویر احمد اور ندیم رحمان ملک شامل تھے۔

تقریب سے خطاب کرنے والوں سے لے کر عام شریک تک ہرکوئی یہی اعتراف کررہا تھا کہ یہ سب فیاض اعوان کا طلسم ہے، حالانکہ میں خود کافی ادبی تقاریب کرواچکا ہوں اور جانتا ہوں کہ ادبی تقریبات برپا کرنا مینڈک تولنے کے مترادف ہے، لیکن جس طرح شہرہ آفاق پنجابی فلم مولا جٹ کے آخر میں نوری نت اپنی بہن دارو کو کہتا ہے کہ مجھے اس وقت تک ویر نہ کہو جب تک تیری نسل میں سے کوئی مولاجٹ نہ پیدا ہوجائے، اسی طرح میں نے اپنی تنظیم کے سینئر رکن پروفیسر غلام محی الدین کو کہ دیا کہ مجھے تنظیم کا چیئرمین نہ کہا جائے جب تک تم میں کوئی فیاض اعوان نہ بن جائے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).