گذشتہ ستر برس اور چین کی ترقی


یکم اکتوبر 1949 کو آزادی حاصل کرنے والا چین آج بڑے فخر سے اپنا سترواں جشنِ آزادی منانے جارہا ہے، آج سے ستر سال پہلے طویل ترین خانہ جنگی کے بعد جب چین نے آزادی حاصل کی تھی تو چین کے عظیم رہنما چیئرمین ماؤزے تنگ نے دارالحکومت بیجنگ کے مرکز میں واقع تھیان من کے مرکزی دروازے کے جبوترے پر کھڑے ہوکر عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے چین کی حیثیت کو تسلیم کیا تھا اس اہم موقع کے دو برس بعد اکیس مئی 1951 کو چین اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ طور پر سفارتی تعلقا ت قائم ہوئے۔

چین اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں شامل ہے اس وجہ سے چین کو سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق بھی حاصل ہے۔ دوعشروں تک مغرب کی چین دشمنی کی وجہ سے اسے اقوام متحدہ میں اپنے جائز مقام سے محروم رہنا پڑا۔ 25 اکتوبر 1971 چین کی سفارتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ عالمی ادارے میں چین کی مراعات بحال کردیں۔ چین کی اقوام متحدہ میں یہ غیر معمولی کامیابی دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ چین ہر فورم پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا رہا ہے۔ مراعات کی بحالی کے بعد چین چھوٹی اور کمزور اقوام کے تحفظ کے لئے موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں سیٹ کی بحالی کے بعد چین نے عالمی برادری سے تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ دی۔

1970 کے عشرے کے اختتام تک چین نے 120 ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرلئے تھے جن میں امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام بھی ایک اہم پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم، کوریا کی جوہری قوت کے حوالے سے چھ ملکی مذاکرات، چین افریقن تعاون تنظیم، بیجنگ سربراہ اجلاس ایشیاء یورپ میٹنگ سے لے کر لندن میں جی ٹونٹی سربراہ اجلاس تک چین نے ہر فورم میں اپنے فعال کردارکی وجہ سے اپنی حیثیت منوالی ہے۔ ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت ہونے کے ناتے بھی چین نے عالمی معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور قوموں کی برادری میں چین کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ چین دنیا کا تیسرا ملک ہے جس نے انسان بردار خلائی جہاز خلاءمیں بھیجے 70 سال قبل جب چین آزاد ہوا تھا تو خلاءکو تسخیر کرنے سمیت وہ کامیابیاں خواب معلوم ہورہی تھیں جنہیں آج چین نے اپنی محنت کی بدولت تعبیر کاجامہ پہنایا ہے۔

مستحکم قیمتوں کے حساب سے معلوم ہوا ہے کہ 2018 میں چین کی جی ڈی پی میں 1952 کے مقابلہ میں 174 گنا اضافہ ہوا ہے۔ غربت اور کمزور معیشت سے چھٹکارا حاصل کرکے چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔ 70 سالوں میں، چین کا کھلا دروازہ وسیع تر ہوگیا ہے۔ 1950 میں، چین کی بیرونی تجارت صرف ایک ارب تیرہ کروڑ امریکی ڈالر تھی۔ 2018 میں سامان کی مجموعی درآمد اور برآمد کا حجم چار سو چھیالس کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا۔ چاول بیچنے سے لے کرتیز رفتار ریل فروخت کرنے تک، چین کی بیرونی تجارت کی مالیت اور معیار میں زبردست اضافہ ہواہے۔ اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی کل مالیت دو سواکیس کھرب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔

1978 میں دنیا کی معیشت میں چین کا تناسب 1.8 فیصد تھا جبکہ 2018 میں یہ شرح 16 فیصد ہوچکی ہے۔ 2006 کے بعد سے، دنیا کی معاشی نمو میں چین کاحصہ پہلے نمبر پر آگیا ہے اس لحاظ سے چین عالمی اقتصادی ترقی کا سب سے بڑا انجن بن گیا ہے۔

آج، چین دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک، سب سے بڑا کارگو ٹریڈنگ ملک، سب سے بڑا زرمبادلہ ذخیرہ رکھنے والا ملک، اور دوسرا سب سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے والا ملک ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر، تیجانی محمد بانڈی نے کہا کہ پچھلے 70 سالوں میں، چین ایک غریب ملک سے ایک ایسا ملک بن گیا ہے جو عالمی حکمرانی اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کی معاشی ترقی میں رہنما کردار ادا کررہا ہے۔ یہ انسانی ترقی کے لیے ایک بہت بڑی خدمت ہے۔

چینیوں کی زبردست معاشی ترقی کا اہم راز یہ ہے کہ انہوں نے سب ہی ممالک سے دوستانہ اور امن پسندانہ تعلقات رکھے ہیں۔ یوں کسی غیر ضرروری مسائل میں الجھے بغیر وہ خاموشی سے معاشی ترقی کرتے رہے۔ لیکن صدر بارک اوباما کی آمد کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ کھل کر مختلف معاملات پر چینیوں سے منہ ماری کرنے لگی۔ خاص طور پر قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ بحیرہ جنوبی چین دونوں بڑی قوتوں کے مابین وجہِ تنازع بن گیا۔ جب امریکہ کی جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہی وقت تھا کہ چین نے فیصلہ کیا کہ اب اسے عسکری طور پر بھی مضبوط ہونا پڑے گا۔

اسی تناظر میں 2010 ء کے بعد سے چینی حکومت نت نئے ہتھیار بنانے کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کرنے لگی۔ امریکا چین کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ لیکن امریکی حکمران طبقے کی چال بازیوں سے متنفر ہو کر چین نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں نئی منڈیاں تلاش کی جائیں تاکہ چینی معیشت محض امریکا پر انحصار نہ کرے۔ یہ معاملہ بھی چین کے نئی شاہراہ ریشم منصوبے کو عملی شکل دینے کا سبب بن گیا۔

بلاشبہ اس قوم کو بھرپور انداز میں اپنی آزادی کا جشن منانے کا حق ہے جن کے ملک نے 70 سال کامیابی کا سفر کامیابی سے طے کیا اور اب بھی شاہراہ ترقی پر پوری رفتار کے ساتھ دوڑا جارہا ہے اور اس کی رفتار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر ابھرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).