سیاسی جماعتوں میں موروثیت


اصول کے لحاظ سے سیاسی جماعت کے اندر موروثیت کوئی اچھی قدر نہیں ہے۔ مگر برِصغیر میں سیاسی جماعتوں کے اندر مورثیت
کا مسئلہ شروع سے ہے۔ انڈیا میں چونکہ جمہوریت کے راستے میں رکاوٹیں نہیں آئی ہیں اس لئے وہاں کے عوام کی کافی سیاسی تربیت ہو چکی اور اب وہ کافی حد تک اس سے دور ہوتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا سفر کبھی بھی ہموار نہیں رہا، اس کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں آئی ہیں جس کی وجہ سے عوام ابھی تک سیاسی جماعتوں کے اندر موجود مورثیت کو نہ صرف مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ اس کو پسند کرتے ہیں۔ اور یہ سیاسی پارٹیوں کی مجبوری ہے کہ وہ قیادت ایک خاندان کے اندر رکھیں کیونکہ عوام صرف اسی خاندان کو شرفِ قبولیت کو بخشتے ہیں۔

برصغیر کے عوام کا مزاج ہمیشہ سے عاشقانہ رہا ہے انہوں نے کسی کی حمایت سے زیادہ عشق کیا ہے۔ موجودہ دور میں اگر بڑی سیاسی جماعتوں کی بات کریں تو یہ عوامی عاشقانہ مزاج مسلم لیگ میں شریف خاندان اور پیپلز پارٹی میں بھٹو خاندان کو نصیب ہوا ہے۔ تحریک انصاف جو ہمیشہ سے سیاسی جماعتوں میں مورثیت کے خلاف رہی ہے اس نے بھی وہی راہ اپنا لی ہے۔ تحریک انصاف کا بس ایک ہی چہرہ ہے اور وہ ہے عمران۔ ان کے بعد پارٹی کا شیرازہ بکھرتا نظر آتا ہے۔

مورثیت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ آپ اپنے پسندیدہ لیڈر کے ہر برے فعل کا بھی دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ کسی کی حمایت نہیں کرتے بلکہ اس سے عشق کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ عشق کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ عشق میں محبوب کی کوئی خامی، خامی نہیں لگتی بلکہ اک حسین ادا لگتی ہے۔ اسی مزاج کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت پنپ نہ سکی۔ پارٹی کے اندر فیصلے کا اختیار مخصوص لوگوں کے پاس رہتا ہے اس پارٹی کے باقی لوگ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کیا فیصلہ آتا ہے تا کہ پھر وہ اس لحاظ سے دلائل دیں۔ یعنی دلائل اصول پہ مبنی نہیں ہوتے بلکہ عشق پہ مبنی ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو بقا کا مسئلہ بھی رہا ہے۔ محلاتی سازشوں نے ان پارٹیوں کو مظلوم بنایا ہے جس سے ان پارٹیوں کی خامیاں چھپی رہتی ہیں اور عوام ان پارٹیوں کے ساتھ جذباتی طور پہ منسلک ہو جاتے ہیں۔ یہ جذباتی وابستگی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ لوگ اس پارٹی کا ہر حال میں دفاع کرنا فرض سمجھتے ہیں۔

عوام کا مزاج راتوں رات نہیں تبدیل ہوسکتا۔ اگر پارٹیوں کے اندر سے مورثیت کی بیماری ختم کرنا ہے تو ملک میں خالص جمہوریت کا نفاذ ضروری ہے۔ عوام کی سیاسی تربیت ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ قوانین کبھی بھی تربیت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ خالص اور ملاوٹ سے پاک جمہوریت سے عوام کو سیاسی جماعتوں کا حقیقی ادراک ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کے پاس یہ عذر ختم ہو جائے گا کہ ان کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اس وقفے کے دوران ہمیں کمتر برائی کے طور پہ ان پارٹیوں کے اندر مورثیت سے صرفِ نظر کرنا ہو گا کہ سیاسی جماعت کی غیر مقبولیت بھی ریاست کے لئے اچھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).