انڈیا کی دھاراوی کچی آبادی میں ایسا کیا ہے جس نے سیاحت میں تاج محل کو مات دے دی


ممبئی

ممبئی کی دھاراوی کچی آبادی نے تاج محل کی سیاحت کو بھی مات دے دی ہے

’ایک زبردست دن‘ یہ کہنا ہے انڈیا کے شہر ممبئی کی دھاراوی کچی آبادی کا دورے کرنے والے ایک سیاح کا اور اس نے یہ کہتے ہوئے جملہ مکمل کیا کہ ’درحقیقت ہر کسی کا انداز دوستانہ تھا اور وہاں کوئی بھیک نہیں مانگ رہا تھا۔‘

یہ سیاح دنیا کے ان ہزاروں افراد میں سے ایک ہیں جو اب ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی کی تنگ گلیوں میں جانے کا ارادہ کرتے ہیں اور ‘کچی آبادی کی سیاحت’ یا جسے ‘غربت کی سیاحت’ بھی کہا جاتا ہے کی بڑھتی ہوئی معیشت میں حصہ ڈالتے ہیں۔

اس متنازع رحجان میں سیاحوں کے چھٹیوں کے دوران غربت سے دوچار علاقوں کا دورہ کرنا شامل ہے تاکہ وہ وہاں بسنے والے غریب ترین طبقات کی حقیقی زندگی کو محسوس کر سکیں۔

ٹرپ ایڈوائزر نامی سیاحتی ویب سائٹ کے ٹریولرز چوائس ایوارڈ کے مطابق ممبئی کی دھاراوی کچی آبادی کے اس طرح کے ایک منظم دورے کو حال ہی میں انڈیا میں سیاحوں کے پسندیدہ تجربے کے طور پر گردانہ گیا حتٰی کہ اس دورے نے انڈیا کے شہر آگرہ میں سیاحوں کی توجہ بننے والے تاج محل کو بھی مات دے دی۔

اس ایوارڈ یافتہ سیاحتی دورے کی پیش کش کرنے والی کمپنی ریئلٹی ٹورز اینڈ ٹریول کے شریک بانی کرشنا پجاری کہتے ہیں کہ’ان سیاحوں میں سے اکثریت امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے سیاحوں کی ہے۔‘

اس کمپنی کو مقامی طور پر ان ٹورز کمپنیوں میں سے ایک کے طور پر جانا چاہتا ہے جنھوں نے سب سے پہلے مکمل طور پر دھاراوی کچی آبادی میں سیاحتی دورے کروانے پر توجہ مرکوز کی تھی۔

’جب میرے شریک بانی اور برطانوی دوست کرائسٹ وے نے تجویز دی کہ ہم کچی آبادی کے دورے کروانا شروع کریں تو میں تذبذب کا شکار ہو گیا۔ کوئی بھی کچی آبادی کیوں جانا چاہے گا؟ لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ اس میں دیکھنے اور سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘

دھاراوی کچی آبادی

ایشیا کی سب سے بڑی ممبئی کی دھاراوی کچی آبادی کے سیاحتی دورے کو انڈیا میں ایک ‘اعلی تجربہ’ قرار دیا گیا ہے

دھاراوی کچی آبادی ممبئ شہر کے عین وسط میں ایک قیمتی جگہ پر واقع ہے۔

ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ افراد ان تنگ گلیوں، ورکشاپوں اور تاریک گھروں کی نہ ختم ہونے والی آبادی میں رہ رہے ہیں۔

یہاں عوامی بیت الخلا اور پانی کے نلکے موجود ہیں لیکن صفائی نام کی نہیں اور گلیوں میں کھلے سیوریج موجود ہیں۔

یہاں رہنے والے بہت سارے افراد مقامی طور پر پنپنے والی چھوٹی صنعتوں میں کام کرتے ہیں جو کڑھائی والے لباس، برآمدی معیار کے چمڑے کا سامان، مٹی کے برتن اور پلاسٹک تیار کرتیں ہیں۔ یہاں اس کاروبار کی سالانہ آمدن کا تخمینہ 650 ملین ڈالرز سے زیادہ ہے۔

لیکن وہاں کچرا اکٹھا کرنے والے، ٹیکسی ڈرائیورز اور مزدور بھی رہتے ہیں۔ یہ وہ گمنام، بے سہارا افراد ہیں جو اس ناشکرے شہر کو رواں دواں رکھتے ہیں۔

زیادہ تر افراد تو اپنی زندگی کے روزمرہ کے معمولات بنا کسی چھٹی کے سر انجام دیتے ہیں۔

منفرد تجربے کی تلاش

تو کون سی چیز انڈیا میں آنے والے سیاحوں کو یہاں آنے اور ان کی زندگی کا مشاہدہ کرنے پر مجبور کرتی ہے؟

سنہ 2016 میں دھاراوی کچی آبادی کا چھ گھنٹے کا طویل دورہ کرنے والی ملیسا نسبٹ کا کہنا ہے کہ ’ہم ملکہ وکٹوریا کے دور سے کچی آبادیوں کا دورہ کرتے آئے ہیں، پہلے یہ دورے تفریح ​​کے لیے تھے اور پھر بعد میں معاشرتی اصلاحات کے مقاصد کے لیے تھے۔‘

انھوں نے دھاراوی کچی آبادی کا دورہ کروانے والے ٹورز آپریٹرز کے پیکجز میں سے ایک ایسے کا اتنخاب کیا تھا جو بہت منظم اور بہتر تھا۔

یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان دوروں کے لیے کتنی رقم خرچ کرنا چاہتے ہیں، کچھ ٹورز آپریٹرز آپ کی ضروریات کے مطابق آپ کو ائرکنڈیشن دورے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔

لیکن ’انسائیڈ ممبئی‘ جیسے ٹورز آپریٹرز بھی ہیں جو ’اہم ثقافتی تبادلے‘ کے مقصد کے تحت کچی آبادی کی کسی ایک جھونپڑی میں کھانے کے تجربے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔

میلیسا کا خیال ہے کہ کچی آبادی کی سیاحت کی موجودہ صورت حال میں لوگ ’دنیا کے شمال سے دنیا کے جنوب میں غریب آبادیوں کو دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔‘

درحقیقت، برازیل اور جنوبی افریقہ کے مقابلے میں انڈیا میں ان کچی آبادیوں کی سیاحت کا رحجان نیا نیا آیا ہے۔ برازیل اور جنوبی افریقہ میں کچی آبادیوں کے دوروں کا رحجان کچھ عرصے سے چل رہا ہے۔

’دھاراوی کچی آبادی کے دورے پر میں نے محسوس کیا کہ دوسرے سیاح بھی میری طرح اسی وجہ سے جا رہے تھے تاکہ کچی آبادی میں زندگی کی حقیقت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔‘

لیکن انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا اور سنا اس سے وہ پریشان ہوگئی۔

غربت کو رومانوی انداز سے پیش کیا گیا؟

ان کا کہنا ہے کہ ’اس کچی آبادی میں موجود جھونپڑیوں کو ایسے پیش کیا گیا جیسے وہاں کوئی مسئلہ نہیں۔ غربت کو نظرانداز کیا گیا، یا اسے عام اور فطری دیکھا گیا، اور یہاں تک کہ کچھ معاملات میں رومانوی بھی بنایا گیا تھا۔‘

’ہمیں رہائشیوں سے بات چیت نہیں کرنے دی گئی لہذا ان کے احساسات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی گزار رہے تھے اور ہماری طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے تھے۔‘

وہ واپس گئیں اور دوسرے سیاحوں کے تجربات کو سمجھنے کے لیے ٹریول سائٹ ٹرپ ایڈوائزری پر شائع سینکڑوں جائزوں کا تجزیہ کیا۔

انھیں حیرانگی تب ہوئی جب انھوں نے یہ جانا کہ زیادہ تر سیاحوں نے غربت کے خدشات کے ساتھ اپنے دوروں کا آغاز کیا تھا لیکن وہ ان کے اختتام پر یہ سوچ کر نکلے کہ وہاں کوئی پریشانی نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر لوگ کچی آبادی سے نکلتے ہوئے ایسا سوچ رہے ہیں تو میرے خیال میں کچھ بہت غلط ہوا ہے۔‘

’اس دورے کو ایک خاص اور منظم سوچ کے تحت ترتیب دیا گیا تھا اور کچی آبادی کو اقتصادی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر پیش کیا گیا لیکن انھوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ ذات پات کے نظام میں معاشرتی طبقے کی وجہ سے اکثریت کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یا دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ انھیں بجلی اور صاف پانی تک مناسب رسائی نہیں ہے۔‘

کچی آبادی

میلیسا دوسرے ٹور آپریٹرز کو یاد کرتی ہیں جو فوٹو گرافی کی اجازت دیتے ہیں اور سوچتی ہیں کہ یہ مقامی لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں تعلیم حاصل کرنے والے ادیتی راٹھو کا کہنا ہے کہ ’رہائشی ان دوروں سے کم الگ تھلگ اور جذباتی طور پر مغلوب محسوس کرتے ہیں کہ بہت سارے غیر ملکی سیاح ان کی زندگیوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔‘

’اس کے ساتھ ہی کچی آبادی کے چند رہائشی ان دوروں کے براہ راست معاشی فائدوں یا ملازمت کے مواقعوں کا ذکر کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان سے جو بھی مثبت نتائج حاصل کیے جاتے ہیں وہ غیر حقیقی اور قلیل مدتی ہیں۔‘

لیکن کرشنا پجاری اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

کاروبار کا جذبہ

ان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کچی آبادی کی کاروباری روح کی عکاسی کرتے ہوئے اس کے تصور کو تبدیل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کی زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔

’ہم اپنے دوروں میں مکمل حقیقت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ لٹکتی بجلی کی تاروں سے لے کر پھلنے پھولنے والی ترقی کرتی ہوئی ریسائکلنگ کی صنعت تک۔ لیکن ہم ان لوگوں کا بیانیہ بدلنا چاہتے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ کچی آبادی محض غربت، خطرے یا بھیک مانگنے کے بارے میں ہے اور ہمارے مہمان خود اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔‘

ان کی کمپنی ان کچی آبادیوں میں فوٹو گرافی کو بھی محدود کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری کمپنی کی ’نو کیمرہ‘ پالیسی بہت سخت ہے۔‘

کرشنا پجاری کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی ایک فلاحی کاروبار ہے جس میں اس کے خیراتی ونگ ’ریئلٹی گیوز‘ کے ذریعے کچی آبادی کے رہائشیوں کے لیے مختلف تعلیمی پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹور سے حاصل ہونے والے کچھ منافع کو استعمال کر کے کیا جاتا ہے۔

سنہ 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں جہاں تقریباً 65 ملین افراد کچی آبادیوں میں رہتے ہیں وہاں یہ صرف ایک اقدام ہے۔ یہاں کچی آبادیوں کو ’ایک ایسے رہائشی علاقے‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے جہاں مکانات انسانی رہائش کے لیے نامناسب ہیں۔

دھاراوی کچی آبادی

ممبئی کی دھاراوی کچی آبادی میں بہت سی چھوٹی صنعتیں کام کر رہی ہیں

’انسائیڈ ممبئی‘ کے ساتھ ٹؤر منعقد کروانے والے محمد کا خیال ہے کہ سیاحوں کو اس قابل ہونا چاہیئے کہ وہ یہاں کے لوگوں کی ثابت قدمی اور ابھرنے کی قوت کا مشاہدہ کر سکیں۔

’میں یہ کہوں گا کہ اس برادری کو نظرانداز کرنا اور ایسے ظاہر کرنا کہ اس کا وجود ہی نہیں ہے انسانیت کے خلاف ایک حقیقی جرم ہو گا۔‘

لیکن کیا اس طرح کے دورے ذاتی تزئین سے بالاتر ہیں اور معاشرے کے تنظیمی ڈھانچے میں کسی تبدیلی کو آگے بڑھاتے ہیں؟

لیسٹر یونیورسٹی کی ایک لیکچرر، فیبین فرینزیل کے مطابق ’یہ کوششیں غربت کے پیچیدہ اور وسیع پیمانے پر امور کو کافی حد تک حل نہیں کرسکتی ہیں۔‘

’اس کے بجائے اس طرح کے دوروں کا مثبت اثر یہ ہے کہ یہ کچی آبادی والے علاقوں کو سامنے لاتا ہے اور رہائشیوں کو وسائل کی زیادہ سے زیادہ تقسیم کے لیے یا انخلا جیسے خطروں کے خلاف دعویٰ کرنے کا اہل بناتا ہے۔‘

سیاسی صلاحیت

موجودہ سیاحتی دوروں کے بیانیے میں ایک جہتی تصویر کشی کا خطرہ ہو سکتا ہے، لیکن فیبین اسے سیاسی اور معاشرتی شعور کی تشکیل کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھتی ہیں۔

’انڈیا چاند پر راکٹ بھیج رہا ہے اور اب بھی آبادی کے بڑے حصوں کو بشمول مناسب رہائش اور صفائی ستھرائی کے وہ سہولیات نہیں ملتی ہیں جن کے وہ مستحق ہیں۔‘

’کچی آبادی کی سیاحت انڈین اشرافیہ کے لیے شرمندگی کا باعث ہو سکتی ہے لیکن اس میں سیاسی امکانات بھی ہیں۔ جو سیاسی انتخاب اور ناانصافیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp