کشمیر پر امریکی ثالثی کا خطرناک آپشن


5 اگست کے دن جب چوّن سالہ امیت شا نے 245 اراکین پر مشتمل راجیہ سبھا کے سامنے جموں کشمیر کی حیثییت بدلنے کی قرارداد پیش کی تو دراصل یہ پاکستان اور بھارت دونوں کی سفارتی طاقت کی آزمائش کی ابتدا تھی۔ چند دنوں میں ہی دونوں ممالک اندرونی و بیرونی طور پر دباؤ کا شکار ہوگئے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت دنیا بھر کو اسے اپنا اندرونی مسئلہ قرار دینے کی وضاحتیں دے رہا ہے اور پاکستان اسے ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ قرار دے کر دنیا کو اس کی سنگینی سے خبردار کررہا ہے۔ گویا کہ بھارتی خارجہ پالیسی دفاعی پوزیشن پر ہے اور پاکستان جارحانہ موڈ میں ہے۔

تاہم بقول ڈینس راس سفارتکاری ایک ایسا کھیل ہے جس میں کامیابی کے امکانات تب تک رہتے ہیں جب تک مقاصد اور ذرائع میں ہم آہنگی رہے۔ جموں کشمیر کی آزادانہ حیثیّت کی بحالی کے مقصد کے حصول کے لئے پاکستان جن سفارتی ذرائع کو بروئے کار لا رہا ہے ان سے تو یہ اشکال ابھرتی ہیں کہ پاکستان بھارت پر تین طرفہ سفارتی دباؤ استعمال کر رہا ہے۔ اول، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں عالمی برادری کی توجہ مبذول کروائی جائے۔ دوم، بی جے پی اور نریندر مودی کو انسانیت دشمن، متعصب، مسلم کش اور فسادی قرار دے کر انسانی حقوق پر آواز بلند کروائی جائے۔ سوم، امریکہ کو پاک بھارت تعلقات کی ثالثی کے لئے راضی کیا جائے۔

جہاں تک اول الذکر سفارتی دباؤ کا تعلق ہے تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہی ہے کہ دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ بحال کر کے مسئلہ کشمیر کے موثر حل کی جانب بڑھا جائے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دو سو چھیاسیویں سیشن میں جب چین کی تیار کردہ قرارداد کو زیربحث لایا گیا تو طرفین کے دلائل سننے کے بعد کونسل نے اپریل 1948 میں اسے اقوام متحدہ چارٹر کے آرٹیکل چھے کے تحت منظوری دی جس میں دونوں ممالک میں سے کسی کو بھی جارح قرار نہ دیتے ہوئے اس بات پہ زور دیا گیا کہ باہمی اتفاق رائے سے مسئلہ حل کیا جائے۔ اس کے لئے استصواب رائے کا ایک فریم ورک بھی تجویز کیا گیا۔ لیکن بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اس مسئلے کا حل بہرحال دونوں ممالک ہی طے کریں گے۔

اگر اقوام متحدہ نے اپنا ٹھوس کردار متعین کرنا ہوتا تو اسے آرٹیکل سات کی نسبت منظور کرتے ہوئے کم از کم کسی ایک ملک کو اس مسئلے کا ذمہ دار ٹھہراتا۔ یہ مسئلہ چونکہ بھارت اس فورم پر لے کر گیا تھا اس لیے اسوقت کی پاکستانی سفارتی ٹیم نے اسے آرٹیکل چھے کے زمرے میں ڈال کر پاکستان کو عالمی برادری کے عتاب سے بچا لیا تھا جو کہ بلاشبہ ایک بڑی کامیابی تھی۔

ساٹھ کی دہائی تک اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کو ترجیحی اہمیت دیتی رہی لیکن پاک بھارت جنگوں نے عالمی دلچسپی کو کم کردیا۔ شملہ معاہدے نے اس امر کو ٹھوس بنیادوں پہ واضح کردیا کہ مسئلہ کشمیر کی نوعیت بے شک بین الاقوامی ہے لیکن اس کا حل پاک بھارت اتفاق رائے میں ہی پنہاں ہے۔ اسی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے جب بھی پاکستان اقوام متحدہ کی قرارداد 47 پر زور دیتا ہے تو کم و بیش ہر ملک بشمول عرب، روس اور امریکہ اسے سراہتے ہوئے دونوں کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی اہمیت پہ زور دیتے ہیں۔ چنانچہ اس سفارتی دباؤ میں پاکستان کو نہ صرف عالمی حمایت حاصل ہوتی ہے بلکہ بھارت کو بھی بھاگنے کو موقع نہیں ملتا۔

لیکن دیگر دو سفارتی ذرائع یعنی انسانی حقوق اور ثالثی کے معاملے میں پاکستان کو کچھ رکاوٹیں درپیش ہیں۔

بدقسمتی سے دنیا اس حقیقت کا علم رکھتی ہے کہ بھارت کے مقابل پاکستان میں انسانی حقوق کے مسائل زیادہ ہیں۔ یہ بات ان کے لئے قابل یقین نہیں کہ انسانی حقوق کی عالمی درجہ بندی میں 140 نمبر پہ براجمان ملک ایک ایسے ملک پر نسل کشی کا کیس بنانا چاہ رہا ہے جو کم از کم اس کی نسبت بہتر درجہ بندی پر ہے یعنی 110 پر۔ بھارت ہر مرتبہ کشمیر کے برخلاف بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں انسانی حقوق کی پامالی کا شور ڈال کر پاکستان کے کیس کو نہ صرف کمزور کرتا ہے بلکہ اس بہانے کشمیر کو ایسی ہی نوعیت کا اندرونی مسئلہ بھی قرار دے دیتا ہے۔

ایک اور اہم حقیقت یہ بھی زیر غور رہے کہ پاپولزم کے سیاسی چلن کے باعث بڑی طاقتیں اب نظریات کی بجائے عوامی آراء پر کھڑی ہیں۔ موجودہ حکومتیں عوام کی سیاسی و جمہوری تربیت کی بجائے، عوام کی خواہشات پر قائم ہیں۔ امریکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل سے علیحدگی اختیار کرچکا ہے جس کا اثر ادارے کے مالی و سیاسی معاملات پر منفی انداز میں پڑا ہے۔ برطانیہ بریگزٹ سے نبردآزما ہے۔ یورپ کو امریکہ کی نیٹو کو کمزور کردینے والے رویے کے باعث روس کی عسکری اور معاشی بحرانوں کا چیلنج درپیش ہے۔

چین زنجیانگ پر ہی وضاحتیں دے رہا ہے جبکہ عرب ممالک میں انسانی حقوق جیسے الفاظ سیاسی ڈکشنری کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتے۔ ایسے حالات میں انسانی حقوق پر صدا کاری سے عالمی ضمیر کو جھنجوڑا تو جاسکتا ہے لیکن بیدار کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کی پامالی کا کیس کشمیر کو عالمی سطح پر متعارف تو کروا سکتا ہے لیکن اس میں اتنی سکت نہیں کہ اسے منطقی انجام تک پہنچا سکے۔ شاید اسی سچائی کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان اب انسانی حقوق کا بیانیہ مسلم حقوق کی طرف موڑ رہا ہے تاکہ کم از کم اسلامی ممالک کو زیر کیا جاسکے۔ اسلامی کارڈ کا یہ فائدہ بھی ہے کہ اگر بحیثیّت مجموعی انسانی حقوق کی بات آئے تو اس کی زد میں خود پاکستان بھی آتا ہے۔

تاہم ان سب ذرائع میں سب سے زیادہ تعجب انگیز سفارتی دباؤ امریکہ کو ثالثی پہ راضی کرنا ہے۔ یہ بات یقیناً ہمارے پالیسی سازوں کے ذہن میں ہوگی کہ ثالثی کے بنیادی خواص میں دو پہلو بے حد نمایاں ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ فریقین ثالثی پر راضی ہوں اور دوسرا یہ کہ ثالث کا فیصلہ فریقین پر لازماً نافذالعمل ہوتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین میں بھی اس کا اعادہ نیویارک کنونشن کی صورت میں کیا گیا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر کیا پاکستان امریکی فیصلے کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو سکے گا کیونکہ امریکہ نے اس سے قبل جب اوسلو معاہدہ میں ثالثی کرائی تھی تو اس کے نتیجے میں طرفین میں شدید عوامی ردعمل دیکھا گیا تھا۔ اضحاک رابن کو عمران نامی ایک یہودی نے گولی مار کر قتل کردیا تھا جبکہ یاسر عرفات بعدازاں مبینہ طور پر زہر خورانی سے موت سے ہمکنار ہوئے۔ فلسطینی اور اسرائیلی عوام نے حماس کے انتفاضہ پہ بے شمار جانیں قربان کیں۔

چنانچہ اس تناظر میں امریکہ کی ثالثی کے نتیجے میں وقتی طور پہ بے شک کچھ اہداف حاصل کیے جاسکیں لیکن دوررس نتائج منفی ہی نکلیں گے۔ سب سے پہلے تو پاکستان کو اپنے اصولی موقف کی قربانی دینا ہوگی جس کا اعادہ وہ اقوام متحدہ میں کرتا ہے۔ امریکی ثالثی کی شرائط کو تسلیم کرنے کا مطلب سلامتی کونسل کی قرارداد کو رد کرنا ہے۔ بھارت تو پہلے ہی اسے تسلیم نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ نقصان بھی پاکستان کے کھاتے میں آئے گا۔ دوسرا نقصان علاقائی نوعیت کا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت سارک کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے بھی رکن ہیں۔ دونوں ممالک کا امریکہ کے ساتھ بیٹھنے سے یقیناً چین اور روس کو ناگواری ہوگی اور دونوں ممالک بالخصوص پاک چین دوستی میں شکوک پیدا ہوں گے۔

تیسرا اہم نکتہ سی پیک سے جڑا ہے۔ چین سے پاکستان میں سی پیک کا داخلی راستہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے جو کہ مسئلہ کشمیر کا خطہ ہے۔ اگر ثالثی میں امریکہ اس خطے کی بابت کچھ شرائط عائد کرتا ہے تو اس کا براہ راست اثر پاک چین اکنامک کوریڈور پر پڑے گا جو کہ کم از کم مثبت تو ہرگز نہیں ہوگا۔ اور موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو ٹرمپ کے دور حکومت میں پاک امریکہ تعلقات اور باہمی خیر سگالی کے جذبات کی نوعیت قابل ستائش بھی نہیں۔ اگر پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ طالبان مذاکرات کی نسبت امریکہ کی ہمدردی حاصل کی جاسکتی ہے تو یہ امکان بھی معدوم نظر آرہا ہے۔ کیونکہ امریکی لابی افغانستان سے نکلنے میں کسی بھی قسم کی جلدبازی کا شکار نہیں جس کا مظاہرہ حال ہی میں نظر بھی آیا۔

جموں کشمیر کی خودمختار حیثیّت کو عملی طور پر اس طریقے سے بحال کروانا تو اب ممکن نہیں رہا لیکن امریکی ثالثی کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ پاک مخالف فیصلے ایک اور سفارتی دباؤ کا سبب ضرور بنیں گے جو بذات خود ایک نیا مسئلہ پیدا کردیں گے۔ لہذا اس صورتحال میں تو یہی لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے علاوہ کسی اور آپشن کو استعمال کرنے سے سفارتی نقصان کا ہی اندیشہ رہے گا۔ اس قرارداد کی روشنی میں باہمی مذاکرات کا در کھول کر تجارتی، ثقافتی، سیاسی اور سفارتی ڈائیلاگ کی راہ ہموار کی جائے۔

کچھ ماہرین کی رائے میں پاک بھارت تعلقات کو 1999 والی پوزیشن پہ لے جانے کی کوششیں کرنی چاہئیں جب اعلان لاہور میں مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب بڑھنے کے لئے تجارت، بس سروس، ثقافتی آمدورفت سمیت دیگر امور میں نرمی پیدا کرکے اعتماد سازی کی فضا پیدا کرنے کا جامع روڈ میپ بنایا گیا تھا اگر وہ سلسلہ چلتا رہتا تو ممکن تھا کہ کشمیر کے متعلق دونوں ممالک میں ایسی لابیاں مضبوط ہوتیں جو اس کے حل کے لئے قابل عمل راہ نکال لیتے۔ کم از کم اتنا ممکن ہوتا کہ سرحد کے دونوں طرف کے کشمیری آپس میں ضرور مل پاتے۔ اب بھی اگر عالمی برادری کو دعوت دینے کی بجائے پاک بھارت دو طرفہ مذاکرات کی جانب رجوع کیا جائے تو کچھ بعید نہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب ٹھوس پیش رفت ہوسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).