پاکستان کو درپیش دفاعی چیلینج اور اس کا موثر جواب


یہ جنگ ابھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے دشمنوں کے لئے موجودہ سیٹ اپ اور اصل مقتدرہ نے انتہائی موافق حالات پیدا کر رکھے ہیں جس کا اظہار ہمارے دشمنوں کے مختلف اقدامات سے ہوتا ہے۔ کمزوری چاہے کتنی بھی ہو بے وقوف سے بے وقوف انسان اس کمزوری کو کھلے عام دشمن کے سامنے تسلیم نہیں کرتا لیکن ہمارے ہاں بات ہی آخری گولی اور خون کے آخری خطرے سے ہی شروع کی جاتی ہے یعنی دشمن کا ”سافٹ بیلی“ ایکسپوز کرنے کے بجاے اپنے سافٹ بیلی کو دشمنوں کے سامنے ننگا کیا جا رہا ہے۔ کہاں تو ماضی قریب تک ”بلف“ کی حکمت عملی کے تحت زمین و آسمان کے قلابے ملاے جا رہے تھے اور دنیا میں ہر شعبے میں نمبر ون ہونے کے دعوی اپنی ناخواندہ اور سادہ لوح عوام کے ذہنوں میں ڈالے جا رہے تھے۔

مستقبل تو کیا ماضی تک کی عسکری فاش غلطیوں اور ناقص حکمت عملیوں کا تجزیہ تو دور کی بات ان کا ذکر تک کرنا ”غداری اور ملک دشمنی“ کا الزام بن جاتا تھا۔ کہاں یہ بے نمکی کہ اعلٰی ترین سطح پر کھلے عام دشمن کے سامنے اپنی کمزوری اور بے بسی کا مجرمانہ اعتراف کیا جا رہا ہے۔ ستر سال کی تیاریوں کے بعد یہ شنید دی جا رہی ہے کہ روایتی طور پر دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس اعتراف کو تقیت دیتے ہوے سٹریٹیجک ڈیپتھ کے مدفون مضحکہ خیز نظرئیے کے بعد تازہ ایڈیشن ٹیکٹیکل ویپن کی شکل میں سامنے لایا جا رہا ہے کہ اگر ( خدانخواستہ ) دشمن ہمارے علاقے کے اندر پیش قدمی کر آتا ہے تو ہم اس پر اپنے ہی علاقے میں ٹیکٹیکل ویپن استعمال کریں گے اس بارے میں دو باتوں کا ذکر اس منصوبے میں شامل نہیں کہ کیا دشمن کا ایڈوانس انیس سو پینسٹھ کے ہمارے ون آرمڈ ڈویژن کے ایڈوانس کی طرح کسی نالے یا دے یا کے ایک ہی پل پر مرتکز ہو گا جیسا ہم نے پورے آرمڈ ڈویژن کو روہی نالہ کے اکلوتے پل سے گزارنے کی کوشش کی تھی اور اس کوشش کا کیا انجام ہوا تھا پاکستان کی عسکری تاریخ کے طالب علم ضرور جانتے ہوں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دشمن کے ایڈوانس کا پھیلاؤ کافی زیادہ ہوا تو کون سے اور کتنے ٹیکٹیکل ویپنز اس کو روک سکیں گے اور کیا جواب میں دشمن بڑے سائز کے ایٹمی ہتھیار ہم پر پہلے ہی مرحلے میں استعمال نہ کر گزرے گا۔ لہذا ہماری عقل کے مطابق دشمن کے حملے کو روکنے کے لئے وسیع پیمانے پر روایتی انونٹری اور ٹیکٹکس پر ہی چند نئے آئیڈیاز کی شمولیت سے انحصار کرنا پڑے گا لہذا جنگ سے پہلے ہی ان روایتی اثاثوں کے مورال کو تباہ کرنے سے احتراز کیا جانا چاہیے۔

ہم نے آج تک سول مجاہدین کو امریکی سی آئی اے کے افغان وار ماڈل کے مطابق علیحدہ اور آزادانہ طور پر استعمال کیا ہے جس وجہ سے اب ہم پر ہمارے دشمنوں کی طرف سے دہشت گردی کی مدد کا الزام لگایا جا رہا ہے اور ہمارے اس سلسلے میں اعترافی اقدامات دشمنوں کے موقف کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ جب ہم خود کھلے عام بھارت جیسے دشمنوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے انٹیلیجنس ذرائع سے یہ تصدیق کر لیں کہ اب ہم دہشت گردوں ( حریت پسندوں ) کی کسی قسم کی کوئی امداد نہیں کر رہے۔

لیکن اس وقت حالات کی۔ نزاکت اور ہمیں درپیش چیلینج کا تقاضا ہے کہ ہم جذبہ جہاد سے سرشار اپنے سول مجاہدین کا اپنے ریگولر فوجی اثاثوں اور قوت کے ساتھ اشتراک سے استعمال کا منصوبہ تشکیل دیں اور ان کو باقاعدہ فوج کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاے اس طرح نہ تو ہم پر دہشت گردی کے الزام کی گنجائش رہتی ہے اور ہمارے لئے بھی اس جوش و۔ جذبہ اور دفاع وطن کے لئے شوقِ شہادت سے سرشار مجاہدین کے دفاع وطن کے مقصد سے استعمال کی ضرورت پوری ہوتی ہے کیونکہ اپنے وطن کی حفاظت کے لئے اپنی افواج کے شانہ بشانہ لڑنا دہشت گردی کسی طرح بھی نہیں کہلائی جا سکتی۔ لیکن اس منصوبے پر عمل درآمد کے لئے غیر روایتی سوچ کی حامل لچک دار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

ایک اور انتہائی ضروری امر کہ پہلے کی طرح ان مجاہدین کو یوز اینڈ ڈسپرس اینڈ ڈسپوز نہ کیا جاے بلکہ ان کو کسی لچک دار صورت میں ہمارے دفاعی نظام کا ایک پروڈکٹو حصہ بنا لینا چاہیے اور زمانہ امن میں ان کو قومی اور دفاعی اہمیت کے پیداواری منصوبوں میں استعمال کیا جانا چاہیے اور ان منصوبوں کی متوقع آمدن کو ان کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے۔ حضرت قائد اعظم کے فرمان کے مطابق ”اگر دفاع پاکستان کے لئے جنگ لڑنی پڑ جاے تو کبھی ہتھیار نہ ڈالیں اور میدانوں۔ دریاوں۔ سمندروں میں جنگ جاری رکھیں جب تک جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).