عمران خان نے جنرل اسمبلی میں اپنے مخالفین کو چاروں شانے چت کر دیا


وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے بعد اُن کے ناقدین بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ عمران خان نے دُنیا کے سب سے بڑے فورم پر اپنے مخالفین کو چاروں شانے چت کر دیا۔ عمران خان دنیا میں ایک مدبر لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ دُنیا اُن کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ کیا واقعی عمران خان ایک مدبر لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں ہمیں تاریخ کے اوراق سے گرد جھاڑنی پڑے گی۔

رچرڈ نکسن اپنی کتاب ”لیڈرز“ میں لکھتے ہیں جو خصوصیت ایک بڑے لیڈر کو چھوٹے لیڈر سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہیں ”بڑا لیڈر زیادہ پُراثر ہوتا ہے زیادہ موثر انداز میں کام کر سکتا اس کے پاس معاملات کو جانچنے اور پرکھنے کی وہ اہلیت ہوتی ہے جو اُسے مہلک غلطیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور اُسے آنے والے مواقع کو پہچاننے کے قابل بناتی ہے“

رچرڈ نکسن کی اس بات سے اگر اتفاق کیا جائے تو عمران خان کے موجودہ دورہ امریکہ میں دنیا نے سب سے زیادہ انھیں سنا گوگل پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد سب سے زیادہ انھیں سرچ کیا گیا اُن کی تقریر اور انٹرویوز سے عالمی دنیا متاثر بھی ہوئی۔

فرانسیسی لیڈر چارلس ڈیگال بحوالہ ”تلوار کی دھار“ کا کہنا ہے جب حالات کے چیلنج کا سامنا ہو تو صاحب کردار لیڈر اپنے باطن کا رُخ کرتا ہے اور صرف اپنے آپ پر بھروسا کرتا ہے۔ خود انحصاری کے خوگر لیڈر کو مشکلات میں ایک خاص کشش معلوم ہوتی ہے کیونکہ صرف مشکلات کا مقابلہ ہی کرکے وہ اپنی صلاحیتوں کی آزمائش اور افزائش کر سکتا ہے۔ فیصلے کی گھڑی میں وہ گبھراتا نہیں بلکہ پہل کاری سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ کر اُس کا استقبال کرتا ہے ”۔

ڈیگال کے مطابق دیکھا جائے تو کپتان اس پر بھی پوُرا اترتا ہے سیاست میں خطرات مول لینے سے مراد حوصلہ مندی اور درست وقت پر فیصلہ کرنے کا ارادہ اور اہلیت ہے۔ یہ کچھ حاصل کرنے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دینے کا نام ہے۔ لیڈر کو شکست، ناکامی اور خوف زیاں سے گبھرانا نہیں چاہیے حوصلے پر گفتگو کرتے ہوئے ایک مرتبہ چرچل نے کہا تھا کہ ”ہمت و حوصلے کے بغیر دوسری تمام اچھی خصوصیات بے معنی ہو جاتی ہیں“

جواہر لعل نہرو ”تاریخ عالم کی جھلکیاں“ میں لکھتے ہیں ”زندگی سے لطف اندوز ہونے کا واحد طریقہ بے خوفی اور شکست و بربادی کی پروا نہ کرنا ہے کیونکہ شکست و بربادی اُن لوگوں سے ہمیشہ دور رہتی ہے جو بے خوف ہوتے ہیں نہرو مزید لکھتے ہیں کہ“ لوگ اکثر نتائج سے خوف زدہ ہو کر حرکت میں آنے سے گبھراتے ہیں اور مسائل کا دنیا کے سامنے ذکر کرنے سے خوف محسوس کرتے ہیں کیونکہ حرکت میں آنے کا مطلب خطرات مول لینا ہے دور سے دیکھو تو خطرہ بہت خوفناک معلوم ہوتا ہے پاس جا کر دیکھو تو یہ اتنی بُری نہیں ”

عمران خان نے اپنی تقریر بے خوف ہو کر کی دنیا کو باور کرایا کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ کرایا گیا تو اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔ مجھے سرنڈر یا لڑنے کا کہا گیا تو میں اللہ کی واحدنیت پر یقین رکھتا ہوں اور موت سے نہیں ڈرتا میرے پاس آپشن ہو گا گولی۔ انھوں نے شکست و بربادی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک لیڈر کی طرح کشمیریوں کی ترجمانی کی۔

عمران خان کا واسطہ جس قوم سے پڑا وہ سیاسی شعبدہ بازی میں اقوام عالم کی تاریخ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کی گواہی پوری دنیا دیتی ہے۔ عمران خان نے دنیا کے سامنے زبان سے وہی لفظ ادا کیے جو خود ان کے قلب و ذہن پر نقش ہے۔ حق و صداقت کے ساتھ کپتان ڈٹا رہا تو میکیاولی سیاست کے پیروکاروں کو شکست دے دے گا۔

سعودی عرب کپتان کو ایران کے معاملے میں ثالث بننے کا کہہ رہا ہے تو دوسری طرف ایران امریکہ کے معاملے میں جس کا برملا اظہار ایران اور سعودی عرب کے قائدین کر چُکے ہیں۔ ایک طرف ٹرمپ عمران کو اپنا بہترین دوست کہتا ہے تو دوسری طرف پوٹن۔ ان تمام واقعات کو دیکھتے ہوئے عمران خان عالمی دنیا میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر اتر رہے ہیں۔

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ میرے ذہن میں ایک جمہوری اور آزاد معاشرے کا تصور ہے جہاں تمام لوگ پُرامن اور انھیں برابری کا موقع ملے یہ وہ سوچ ہے جسے میں حاصل کرنے کے لیے جینا چاہتا ہوں لیکن اگر ضرورت پڑی تو میں اس کے لیے مرنے کو تیار ہوں منڈیلا نے اقتدار حاصل کیا تو انھوں نے ثابت بھی کیا کہ وہ لوگ جنہوں نے نیلسن منڈیلا کو جیل میں قید رکھا، انہیں اذیتیں دیں، انہوں نے ان کے لیے کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی بلکہ انھیں جمہوری اور آزاد معاشرے میں برابر حقوق دیے۔ وزیراعظم پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ قوم میں ایکا پیدا کرنے کے لیے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ہاتھ ہولا رکھیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui