وزیراعظم عمران خان: کشمیر کا سفیر اور تمام مسلمانوں کا ترجمان


پاکستانی عوام کو پھر ایک موقع ملا کہ وہ اپنی قیادت کی صلاحیتوں کا جائزہ لیں کہ ملک کی باگ ڈور کیسی شخصیت کے ہاتھ میں ہے۔ جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان کا خطاب سن کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ عمران خان نہ صرف پاکستان کی نمایندگی کر رہے تھے بل کہ ان کی تقریر ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کی ترجمانی بھی تھی۔ ہمارے ہاں کسی عمل کے اچھے یا بُرے نتیجے کو اس سے حاصل ہونے والے نتائج سے اخذ کیا جانا چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ حالات و واقعات کے تناظر میں بھی اسے جانچنا ضروری ہوتا ہے۔

مَیں بغیر کسی سیاسی تعلق کے بلا تامل کہوں گا کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستان نہایت خوب صورت انداز میں حقِ نمایندگی ادا کیا۔ بل کہ وہ نکات جن کو ایسے فورم میں سامنے لانا خاصا مشکل نظر آتا تھا انھوں نے نہایت تفصیل سے انھیں کھول کر پیش کیا اور شرکاے اجلاس کو ان کی وجوہ اور حقیقت بھی سمجھانے کی کوشش کی۔ مَیں قطعاً اس تقریر سے یہ امید نہیں رکھتا کہ ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے اور وہ ملک جو اپنے مفادات کے تحت فیصلے کرتے ہیں وہ اپنے سوچ اور عمل کا انداز بدل لیں گے۔ اور پاکستان کی اندھادھند تقلید کرنا شروع کر دیں گے۔ البتہ یہ ضرور ہو گا کہ کچھ لوگوں کو راستہ ملے گا کہ وہ حقائق کی کھوج میں چل نکلیں گے۔

اس تقریر میں جن چار نکات کو وضاحت سے پیش کیا گیا ان میں ترقی پذیر ممالک سے امیر ملکوں میں پیسے کی منتقلی کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے امیر ملکوں کو ان کی ذمہ، داری کا احساس دلانے کی کوشش کی کہ وہ ایسا کرنے والوں کا راستہ روکیں تاکہ غریب ملک اس لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رہ سکیں۔

عمران خان ان سب نکات کو جوڑتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ دہشت گردی کو جوڑنے کے عمل کو نہایت ہی مدلل انداز سے پیش کرتے ہوئے نظر آئے اور انھوں نے کہا کہ کچھ ملکوں کی کم علمی اور کچھ ملکوں کے سربراہوں کی اسلام دشمنی کی بنیاد پر دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ دیا گیا ہے۔ انھوں نے نہایت دلیرانہ انداز میں اسے اسلامو فوبیا کا نام دیا اور حوالہ دیا کہ ہم مسلمان حضرت محمدﷺ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں جب کوئی شخص ان کی شان میں گستاخی کرے گا تو مسلمانوں کا بھی ری ایکشن آئے گا۔

انھوں نے کہا کہ اس جڑ کو دیکھیں کہ کس وجہ، سے مسلمانوں کا ری ایکشن ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی کو انصاف فراہم نہیں کرتے تو وہ اس کے ردِّعمل میں باہر نکلے گا۔ کیا برما کے مسلمانوں پر جو ظلم ہوا اس میں ہیومن رائٹس کے اداروں نے کچھ کیا۔ آخر یہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم پر خاموش کیوں ہوئے، عمران خان کا بڑے واضح الفاظ میں کہنا ہے کہ اس اسلامو فوبیا پر مسلم ممالک کے حکمرانوں اور نمایندگان کی خاموشی کی وجہ، سے معاملہ یہاں تک پہنچا ہے۔

عمران خان نے نہایت ہی مدلل انداز میں مودی کا چہرہ بے نقاب کیا اور جنرل اسمبلی کو بتایا کہ وہ ہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا لائف ممبر ہے جو کہ ہٹلر سے متاثر ہے اور متعصب ہندو تنظیم ہے۔ جنونی ہندوؤں نے گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جب نریندر مودی وہاں کا وزیراعلیٰ تھا اور اس نے انھیں کھلی چھٹی دی اور مسلمانوں کا قتلِ عام کروایا۔ مودی نے اپنی الیکشن مہم کی بنیاد مسلمانوں کے قتلِ عام اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں کے قتلِ عام پر رکھی جس کا اس نے الیکشن جیتنے کے بعد آغاز کر دیا ہے۔

عمران خان نے واضح کیا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہر موقع پر دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ ان کے جنگی جہاز پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی پر گرائے گئے تو پائلٹ کو فوراً واپس کر دیا تاکہ خطے میں امن قائم رہے مگر بھارت ایسا نہیں چاہتا۔ عمران خان نے واضح کیا کہ بھارت نے جھوٹے پراپیگنڈے سے پاکستان کو پلوامہ کے معاملے میں ذمہ، دار کہا مگر کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا جب کہ وہ خود ایسی کارروائیوں میں بلاواسطہ شریک ہے بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کی جس کا ثبوت کلبھوشن یادیو ہے جس نے از خود سب کچھ تسلیم کیا ہے۔ عمران خان نے بارہا کہا کہ اب پھر بھارت کچھ پلوامہ جیسا واقعہ بنا کر پاکستان کو اس کا ذمہ، دار ٹھہرائے گا۔

عمران خان نے اپنی تقریر کے سبھی نکات کو مجتمع کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں 55 روز سے کرفیو، کشمیریوں کو بند کمروں میں بھوکے پیاسے محبوس کرنے، فوج کا گھروں میں داخل ہو کر عورتوں کو بے آبرو کرنے، نوجوانوں کو گھروں سے نکال کر شہید کرنے اور ٹارچر سیلوں میں بند کرنے کے خلاف بھرپور احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ انسانیت سوز ظلم کی انتہا ہے مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ فوجی و ہندو دہشت گرد نہتے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ ظلم کی انتہا ہے کہ اس پر پوری دنیا خاموش کیوں ہے۔

یہ سب کچھ ڈیڑھ ارب مسلمان دیکھ رہے ہیں اور محبوس کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف اگر مسلمان بندوق اٹھائیں گے تو کیا اسے اسلامی دہشت گردی کہنا جائز ہو گا؟

وزیراعظم پاکستان نے جنرل اسمبلی کے شرکا کو بتایا کہ آج دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ پاکستان بھات سے سات گنا چھوٹا ملک ہے، اس کے پاس کیا آپشن ہے، یہ اپنے آپ کو بھارت کے حوالے کر دے یا لڑ جائے۔ اور مَیں کلمہء حق کہنے والا آدمی تو لڑ کر مرنا پسند کروں گا اور ایسی لڑائی سرحدوں تک محدود نہیں ہو گی اس سے پورا خطہ دور دور تک ایٹمی تباہ کاری کی لپیٹ میں آئے گا۔

درحقیقت جو مَیں مذکورہ تمام حقائق سے سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستان ایک بہت بڑے فورم پر تمام حقائق کو نہایت ہی تدبر سے پیش کر کے پاکستان کے گرد عرصہء دراز سے بُنے گئے اور لپیٹے گئے جال کو ہٹانے اور کاٹنے کی کوشش کی ہے جو بھارت اور اسرائیل نے مل کر بنایا تھا اور ساتھ پاکستانی قیادت نے اپنے حالات میں مست رہ کر اسے بننے دیا تھا جس کے نتیجے میں آج ہمارے ہاتھ اس لیے بھی بندھے ہیں کہ FATF کی بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے ہم ہاتھ باندھے اپنی صفائیاں پیش کرنے میں مصروف ہیں اور پوری دنیا بھارت کے جھوٹے پراپیگنڈے کے سحر میں ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔

عمران خان کی یہ تقریر تمام گند صاف نہیں کر سکے گی، اس کے لیے مستقبل میں متواتر سفارتی بھاگ دوڑ اور مؤثر کوششیں ضروری ہیں۔ گو کہ آج بھی جو آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ جنرل اسمبلی میں ہلا گلا والی فضا میں لوگوں نے پُرامن طریقے سے عمران خان کی تقریر کو غور سے سنا ہے اس کے پیچھے ایک تو چند ماہ کی بھرپور سفارتکاری اور پوری دنیا میں تحاریک کی مہم ہے، دوسرا پُراثر انداز میں دل کی گہرائیوں سے مدلل انداز میں مؤقف کو پیش کرنا ہے۔ اللہ کرے مسلم ممالک بھی حالات کی نزاکت اور معاملات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے غیرت کا مظاہرہ کریں اور غیرت مند مسلمان کی طرح جینے کے انداز کو اپنائیں۔

گو عمران خان نے آخر میں جنرل کونسل کو اس کی ذمہ، داری یاد دلاتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھانے کے لیے بھارت کو مجبور کیا جائے اور کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیا جائے جس کا اس نے عرصہء دراز پہلے متفقہ قرارداد کے ذریعے اعلا کیا۔ مگر یہ سب رات گئی بات گئی والا معاملہ ہی ہو گا۔ ہمیں اسے از خود پوری دنیا میں اسی زور و شور سے زندہ رکھنا ہے اور یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ بھارت کی باگ ڈور بے حس اور بے غیرت قیادت کے ہاتھ میں ہے، لعن طعن سے اسے کچھ فرق نہیں پڑے گا اور حالات قریباً جوں کے توں ہی رہیں گے۔

بھارت مذمت سے نہیں بل کہ مرمت سے راہِ راست پر آئے گا۔ پاکستان نے جنرل اسمبلی میں ساری دنیا کے سامنے حقائق رکھ دیے ہیں اور بتا دیا ہے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لہٰذا اپنے آخری آپشن کی بہتر منصوبہ بندی کر لینی چاہیے کیوں کہ بھارت سے آپ کچھ بھی توقع کر سکتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کفِ افسوس ملتے رہیں اور دشمن ایک قدم اور بڑھ کر سب کچھ لے جائے جس میں ہم احتیاط احتیاط کھیل رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے لیے بہترین موقع ہے، دنیا آگاہ ہے۔ ساری قوم اور ادارے ایک پیج پر کھڑے ہیں اور کسی بھی ایکشن کے لیے شانہ بشانہ تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی قیادت کو مزید طاقت اور قوتِ فیصلہ عطا فرمائے اور کشمیریوں کو آزادی کی نعمت عطا فرمائے اور پاکستان کو عزت و استحکام عطا فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).