خان صاحب کی تقریر اور مسئلہ کشمیر کے قد میں کمی


سیانے کہتے ہیں کہ کسی شخص سے اس کے غم کی انتہا اور خوشی کی ابتداء کے وقت کوئی ایسی بات نہ کہو جو اُن جذبات کے برخلاف ہو جس سے اُس کا دل لبریز ہو۔ پھر جب بات ہوجذبہ حب الوطنی اور جوشِ ایمانی کی اور وقت ہو خان صاحب کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کی گئی دھواں دار تقریر کے جشن منانے کا، تو ایسے میں کوئی سوال اُٹھانے کی کم سے کم سزا، ہم وطن فرزندانِ غیرت و حمیت کے ہاتھوں تذلیل کے سِوا کچھ نہیں لیکن کیا کِیا جائے صاحب کہ کچھ لوگوں کو خود کو پٹواری کہلوانے کا شوق ہمہ وقت سر پر سوار رہتا ہے۔

یہ مان لینا چاہیے کہ خان صاحب نے اپنے حالیہ امریکی دوروں میں جس پُر اعتمادی کا مظاہرہ کیا، وہ اِس سے پہلے ماسوائے جنرل مشرف کے، خال خال ہی دیکھنے میں آیا۔ لیکن ہمیں پُر اعتماد وضع قطع اور جارحانہ اندازِ بیان سے متاثر ہونے اور محض انہی چیزوں کی بنیاد پر خوشی کے بِگل بجانے کے بجائے، یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا ہمارا موقف بین الاقوامی سطح پر اُس طرح پہنچا جس سے ہم اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرسکیں؟ کیونکہ قومی اور اسلامی جذبات کی ترجمانی کرتی ہوئی تقاریر اقوامِ متحدہ کے فورم پر کوئی نئی بات نہیں۔ ایران کے سابقہ صدر، احمدی نژاد نے بھی جنرل اسمبلی میں اپنے تئیں اپنی تقاریر میں مخالفین بشمول خود اقوامِ متحدہ کو بے لباس و بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن اُن تمام تقاریر کا نتیجہ کیا نکلا؟

جنرل اسمبلی جیسے بین الاقوامی فورَمز بڑے مسائل کو چھوٹا کرنے کی بجائے بظاہر دنیا کی نظر میں چھوٹے نظر آنے والے مسائل کو بڑا بنا کر پیش کرنے کے لئے استعمال کیے جانے چاہئیں۔ اس وقت کشمیر سے متعلق جو سب سے بڑا واقعہ ہے اور جِس سے نہ صرف پاکستان کے کشمیری کاز کو نا تلافی نقصان پہنچا بلکہ جِس سے بھارت نے اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کی جانب پیش قدمی کرلی ہے وہ ہے آرٹیکل 370 کی منسوخی۔ کرفیو، فوج کی تعداد میں اضافہ اور کمیو نیکیشن کو منقطع کرنا بلا شُبہ بہت سنگین ہیں لیکن یہ کشمیر کے لئے کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی اِنکے ختم ہونے سے کشمیر دوبارہ اپنی سابقہ حالت پر واپس آجائے گا۔

5 اگست کے بعد شروع میں موجودہ حکومت کی طرف سے کشمیر کے اسپیشل اسٹیٹس کی بحالی پر بیانات کا سلسلہ جلد ہی صرف فوجی اضافہ و مظالم کی مذمت اور مواصلاتی روابط کی بحالی کی ضرورت پر زور دینے تک محدود رہ گیا۔ خان صاحب نے بھی اپنی تقریر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کو فوری طور پر واپس لینے کے بجائے صرف انہی مسائل پر بات کی۔ خان صاحب کی تقریر کا کشمیر کے حوالے سے متن زیادہ تر نریندر مودی کی ذات تک محدود رہا جس یہ تاثر ملا کہ شاید کشمیر کا مسئلہ بی جے پی اور نریندر مودی کی وجہ سے ہے اور بھارت کی سابقہ حکومتوں کے ادوار میں راوی کشمیر کی کسی پہاڑی پر بیٹھا چین ہی چین لکھتا رہا ہے۔ گویا خان صاحب نے کشمیر کو بھارت کی طرف سے پیدا کردہ مسئلہ دِکھانے کی بجائے کسی ایک شخص کو موردِ الزام ٹھہرا کر مسئلہ کشمیر کے قد کو چھوٹا کردیا۔

پچھلے کچھ دنوں سے امریکہ اور دیگر بڑے ممالک کی طرف سے بھی صرف کرفیو کے ہٹائے جانے پر بات کی جارہی ہے۔ اب بین الاقوامی مبصرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے۔ یعنی بھارت پوری دنیا کی توجہ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے ہٹاکر صرف کرفیو وغیرہ جیسے مسائل پر مرکوز کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اور آنے والے چند دنوں میں مواصلاتی روابط بحال کرکے اور کرفیو میں نرمی یا اُسکو مکمل طور پر ختم کرکے بھارت یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے دنیا کی بات سُنی اور کشمیر کا مسئلہ حل کردیا۔ اس کے بعد امریکا کی جانب سے ان اقدامات پر اطمینان کا اظہار اور نریندر مودی کی تعریف کشمیر کے تابوت میں آخری کِیل ثابت ہوگی۔ پھر پاکستان کے اعتراض پر دنیا یہ کہنے میں حق بجانب ہوگی کہ خان صاحب نے کشمیر کے لئے جن مسائل کی پُر جوش طریقے سے نشاندہی کی، وہ تو حل ہوگئے تو پھر اب رونا کیسا؟

مزید برآں یہ کہ کرفیو کے ختم کیے جانے کے بعد خان صاحب نے جس شورش، مزاحمت اور خون ریزی کی پیش گوئی کی اگر وہ وقوع پزیر نہ ہوئی تو پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے موقف کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ بین الاقوامی میڈیا اور بالخصوص بھارت پوری دنیا کو یہ بتا سکتا ہے کہ دیکھئیے صاحب، پاکستان کی عوام سے لے کر حکمرانوں تک میں شدت پسندی اور جنون کا جو لاوا ہمہ وقت پَکتا رہتا ہے ہم اُس کے نقصانات سے کشمیر اور کشمیری عوام کو بچا لے گئے۔ اور دنیا اس تاثر کو قبول کرنے میں دیر نہیں کرے گی کیونکہ جب کسی قوم کا حکمران بین الاقوامی سطح پر مسائل کے حل نہ ہونے کی صورت میں بندوق اُٹھانے کو ذاتی ترجیح قرار دے بیٹھے تو اُسکی عوام کے بارے میں دنیا صرف ایک ہی طرز سے سوچ سکتی ہے۔

جہاں تک بات ماحولیاتی تغیر اور اُس سے پیدا ہونے والے مسائل کی سنگینی پر دنیا کو یہ بتانے کی ہے کہ ہم بھی اس مسئلے کے حل میں سنجیدہ ہیں تو خان صاحب نے بلاشبہ بہت احسن طریقے سے پاکستان کا پیغام پہنچایا۔ امید کی جانے چاہیے کہ اب خان صاحب کی حکومت پاکستان کی سطح پر درپیش ماحولیاتی مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات کرے گی۔ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے معاملہ پر بھی خان صاحب کی کوشش قابلِ ستائش ہے۔ اور اس ناچیز کی طرح تمام ہم وطن اپنے دِلی جذبات کی ترجمانی کے لئے خان صاحب کے مشکور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).