جنرل اسمبلی میں خان صاحب کا خطاب۔ وابستہ توقعات اور میری رائے


محترم خان صاحب کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں سالانہ اجلاس سے کی گئی تقریر سنی!

اتفاق ہی سمجھ لیں کہ اس سے قبل میں مہاتیر محمد اور طیب اردگان کی تقاریر سن چکا تھا۔ ان دونوں احباب کی تقاریر میں جو سب سے اہم پوائنٹ جو مجھے لگا وہ یو این سیکورٹی کونسل کے مستقل 5 ارکان اور ان کو حاصل ویٹو پاور پر ان کی شدید تنقید تھی۔ اقوام عالم کے نمائندہ اس فورم میں P 5 کی بدمعاشی اور مناپلی پر ان دونوں نے خوب تنقید کی اور ان ممالک اور اقوام متحدہ کے ”دہرے معیارات“ کو نشانے پر رکھا۔

اسلامو فوبیا، فلسطین، کشمیر اور روہنگیا کا ذکر ان دونوں نے کیا، جس سے امہ کا ایک تاثر پیدا ہوا۔ دونوں نے اپنے اپنے ممالک کے مخصوص مسائل مثلا شامی مہاجرین اور تجارتی مسائل کا تذکرہ بھی کیا۔

خیر اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ خان صاحب کو سنتے ہوئے میرے ذہن میں یو این اسمبلی میں تقاریر کے حوالے سے اور پاکستانی وزیراعظم سے وابستہ امیدوں کے حوالہ سے ایک ”معیار“ قائم ہو چکا تھا۔

خان صاحب کی تقریر میں جو حصہ سب سے زیادہ متاثر کن تھا وہ ناموس رسالت ﷺ اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے تھا۔

بڑے شاندار طریقے سے اس پر اپنی بات رکھی اور اپنا مدعا بالکل واضح رکھا۔

ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے تقریبا روایتی باتیں اور منی لانڈرنگ کے موضوع میں ہدف پاکستانی اپوزیشن رہی۔

جس بات پر سب سے زیادہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے تھے، وہ ان کی تقریر کا کشمیر کے حوالے سے حصہ تھا۔ خان صاحب یو این اسمبلی جانے سے پہلے آزادکشمیر میں کھڑے ہو کر یہ کہ کر گئے تھے کہ 27 تاریخ سے پہلے کوئی ایل او سی کراس نہ کرے، اگر دنیا نے میری بات نہ سنی تو ( پھر کوئی عملی قدم اٹھائیں گے ) ۔ یو این ہیومن رائٹس کمیشن میں کشمیر کے حوالے سے قرارداد لانے پر مختلف ممالک کی سردمہری اور اس کے بعد مختلف سائیڈ لائن ملاقاتوں اور پریس کانفرنسز میں بھی خان صاحب دنیا کے رویے سے شاکی نظر آئے۔ جنرل اسمبلی اجلاس میں بھی انہوں نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ دنیا اس مسئلہ پر اس لئے توجہ نہیں دے رہی کہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔

اس پس منظر میں میں یہ سمجھ رہا تھا کہ ایک نہایت بولڈ اور ایگریسیو سٹیپ لینے کا اعلان کیا جائے گا، کہ میں لوگوں کو انتظار میں بٹھا کر آیا ہوں۔ ایسا کر دو وگرنہ میں ویسا کرونگا۔

مگر خان صاحب ایسا کوئی قابل عمل لائحہ عمل نہ بیان کر سکے۔

اقوام عالم کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے، ان کے دہرے معیارات پر گرفت کرنے کے حوالے سے خان صاحب کامیاب رہے۔ مگر اقوام عالم کی بے حسی کے علاج کے لئے کسی لائحہ عمل کا اعلان نہ کر سکے۔

خان صاحب کے جن جملوں کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی ان کا مفہوم میری دانست میں یہ بن رہا ہے۔ ”مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہے۔ ۔ ۔ ۔ کرفیو اٹھنے کے بعد عوامی ردعمل آئے گا۔ ۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے پلوامہ جیسا کوئی واقعہ رونما ہو۔ ۔ ۔ ۔ انڈیا ہم پر الزام لگائیگا۔ ۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے ہم پر حملہ کر دے۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم پر حملہ کیا تو ہمارے پاس دو آپشن ہوں گے۔ ۔ ۔ ایک سرینڈر، دوسرا لڑنا۔ ۔ ۔ ۔ ہم لڑیں گے۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ جنگ ایک جوہری جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ “

میرے خیال میں یہ وہی ”بزدلانہ بیانیہ“ ہے جو پاکستان گزشتہ پچاس دنوں سے دہراتا آیا ہے کہ ”اگر آزاد کشمیر پر حملہ ہوتا ہے تو ہم بھرپور جواب دیں گے۔ “

میری سمجھ میں یہ معذرت خواہانہ انداز ہے کہ انڈیا مقبوضہ کشمیر کو وفاق میں ضم کر چکا، انسانیت سوز کرفیو جاری ہے اور آپ کسی عملی اقدام کے لئے خود پر حملے کے منتظر ہیں۔

وزیراعظم آزاد کشمیر نے پارلیمانی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”آپ لوگوں نے کیا آزاد کشمیر آزاد کشمیر لگا رکھی ہے، کیا مقبوضہ کشمیر کے لوگ مرتے رہیں، کیا آپ آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں؟ “

اگرچہ ”کرفیو“ کے اٹھانے کی بات کی گئی مگر مقبوضہ کشمیر کے موجودہ سٹیٹس اور حالات میں تبدیلی نہ کئیے جانے کی صورت میں جس عملی قدم کے اعلان کا میں منتظر تھا، وہ نہ سن سکا۔

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے آزدکشمیر کے باشندوں کو یو این اسمبلی تقریر کا لارا لگا کر جانے والے خان صاحب کے پاس وہ کون سا پوائنٹ ہے جسے بتا کر وہ ان لوگوں کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں؟

( نوٹ : یہ تبصرہ صرف تقریر پر ہے، خان صاحب کے گفتار و عمل میں تضاد پر لوگ بات کرتے ہیں۔ اور ان کے مشہور قول ’یو ٹرن ایک عظیم لیڈر کی نشانی ہے‘ کو لے کر بھی کچھ لوگ بات کرتے ہیں۔ مگر میں نے صرف گفتار کو ہی موضوع بنایا ہے لہذا یہاں ان کے عمل سے کوئی بحث نہیں ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).