انچولی کے کھوکھے


انچولی میں سب سے پہلے ہمارا قیام جس مکان میں رہا، اس کے قریب ترین پرچون کی دکان خالو اظہار کی تھی۔ ان کا نام مجھے بہت عرصے بعد معلوم ہوا۔ اس وقت وہ صرف خالو تھے۔ ان کی دکان کے باہر ایک تھڑا تھا جو پتا نہیں پہلے سے تھا یا انھوں نے بنوایا۔ اس پر خالو کے دوست آکر بیٹھ جاتے۔ ہمارے بابا بھی اکثر وہیں پائے جاتے۔ بابا کی اظہار خالو سے دوستی کی وجہ سے ان کی تینوں بیٹے بھائیوں کی طرح میرا خیال کرنے لگے۔ میں اگلی تحریر میں ارشاد بھائی، کاشف بھائی اور گڈو کا ذکر کروں گا۔

اظہار خالو کے ساتھ رضوان خالو کی دکان تھی۔ میں اپنی کتاب سفر عشق میں ان کے بیٹے منو بھائی کا تذکرہ کرچکا ہوں۔ سامنے سلیم بھائی کے مکان میں ایک بوڑھے انکل کی دکان تھی جن کا نام مجھے یاد نہیں۔ اس دکان میں اندھیرا رہتا تھا۔ بمشکل چند اشیا دستیاب تھیں۔ ہاں، اخبار ملتا تھا۔ جب تک گھر پر اخبار نہیں لگوایا، ان سے ہی جنگ خریدتا تھا۔

پھر سامنے گوہر بھائی کے مکان میں بڑے شاہ جی نے دکان کھولی۔ اس میں آٹے دال چاول کی بوریوں کے بجائے زیادہ تر پیک سامان ملتا تھا۔ شاہ جی نے پیسے کمانے کے لیے نہیں، بیرون ملک بینک سے ریٹائرمنٹ کے بعد دل بہلانے کو یہ کام شروع کیا تھا۔ ان کی عدم موجودگی میں منے بھائی اس دکان پر کھڑے ہوتے تھے۔ وہ منے بھائی کی دکان مشہور ہوگئی۔

منے بھائی کی آواز انچولی کی نمائندہ آوازوں میں سے ایک ہے۔ وہ کئی عشروں سے مسجد خیر العمل میں اذان دے رہے ہیں۔ مجلسوں میں سلام بھی پڑھتے ہیں۔ ہر سال صبح عاشور کی مجلس میں اذان علی اکبر ان ہی کی آواز میں ہوتی ہے۔ کاروان آل عمران کے نام سے قافلے بھی زیارات کے لیے لے جاتے ہیں۔ ان کا اصل نام عمران حیدر ہے۔

سلیم بھائی کے مکان میں تین چار دکانیں ہیں۔ بوڑھے انکل کی دکان ختم ہوئی تو وہاں السید ڈیکوریشن کی دکان کھلی۔ پھر ایک طرف سلیم بھائی کے والد نے جنرل اسٹور کھول لیا۔ دوسری طرف شہریار بھائی نے تمام خالوؤں کو شکست دینے کے لیے کاروبار کا آغاز کیا۔

شہریار بھائی دلچسپ شخصیت تھے۔ علامہ ضمیر اختر کی مجلسوں میں آگے بیٹھتے اور زور زور سے واہ واہ کرتے۔ موٹا چشمہ لگاتے۔ باتیں کرنے کے شوقین تھے۔

شہریار بھائی ان دنوں سامنے کے مکان میں کرائے پر رہتے تھے۔ ایک بار سیوریج کی لائن خراب ہوگئی۔ باہر نکل کر انھوں نے آتے جاتوں سے مالک مکان کی شکایت کی، ”دیکھیں صاحب، گھر میں پانی بھر گیا ہے۔ گُلے لڑھک رہے ہیں۔ ہمارے چھوٹے بچے ہیں۔ کوئی اٹھا کر منہ میں رکھ لے تو۔ “ لوگ ابکائیاں لیتے ہوئے بھاگے۔

اسی سڑک پر ایک دکان راشد بھائی کی تھی۔ چھوٹا قد، دبلے پُتلے نرم و نازک۔ ذومعنی گفتگو کرتے تھے۔ لڑکے بھی ان سے ہنسی ٹھٹھہ کرتے۔ برابر کی گلی میں ان کا گھر تھا جہاں انھوں نے ایک بکری پالی ہوئی تھی۔ وہ باہر بندھی رہتی۔ دن میں دو بار اس گلی سے ریوڑ گزرتا تھا۔ ہر دل پھینک بکرا راشد بھائی کی بکری سے اظہار محبت کرتا۔ راشد بھائی گاہک کی مِن مِن کم سنتے، گلی سے آنے والی آوازوں پر زیادہ دھیان دیتے۔ سودا تولتے ہوئے اچانک ترازو چھوڑ کر کاؤنٹر پر سے چھلانگ لگاتے اور بکری کو ریسکیو کرتے۔ اتاولے بو بکرے ظالم سماج کی دیوار کو ٹکر مارنے کو دوڑتے۔ راشد بھائی چرواہے کے خاندان کے بارے میں بو بکرے جیسے جذبات کا اظہار آسان زبان میں حوالے اور تشریح کے ساتھ کرتے۔

اسی سڑک پر یکے بعد دیگرے دو کھوکھے نمودار ہوئے۔ ایک محمد حسین کاتب کے بیٹے رضا کا ہے۔ محمد حسین صاحب روزنامہ جنگ کے کاتب تھے۔ فٹبال کھیلنے کے شوقین تھے۔ آخری عمر میں بھی امروہا فٹبال کلب کے جوانوں کے ساتھ پریکٹس کرتے۔ شہر بھر میں مشہور دکان انچولی شادی کارڈ ان کے بیٹوں کی ہے۔ لیکن رضا کو کبھی اس دکان پر نہیں دیکھا۔ وہ فٹبال گراؤنڈ کے ساتھ کھوکھا کھول کے بیٹھا ہے۔

لیکن رضا کے کھوکھے سے بہت پہلے بالے بھائی کا کھوکھا کھلا۔ وہ ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ ویسے تو امروہے میں ہر لڑکے کو بالا کہا جاتا ہے، لیکن وہ سچ مچ بالے تھے۔ شاید کسٹمز میں ملازم تھے۔ کسی وجہ سے ان کی نوکری چلی گئی۔ وہ جمع پونچی سے تھوڑا سا سامان خرید کر کھوکھے میں بیٹھ گئے۔ دکان چل پڑی۔ بالے بھائی کا بیٹا سجاد میرا دوست تھا۔ اس زمانے میں سجاد کی چھوٹی بہن توتلی تھی اور اس طرح بات کرتی تھی، ٹڈاڈ ٹم ٹہاں ڈا رہے ہو؟ یعنی سجاد تم کہاں جارہے ہو؟ سجاد پورے محلے میں ٹڈاڈ مشہور ہوگیا۔ آج بھی بہت سے لوگ وجہ جانے بغیر اسے ٹڈاڈ کہتے ہیں۔

سجاد بہت محنتی شخص ہے۔ اس نے کم عمری میں والد کا ہاتھ بٹایا، شادیوں کی مووی بنانے لگا اور پھر جیو میں ملازم ہوگیا۔ بچپن کے دوستوں کو ترقی کرتے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi